چھپے اور سہمے ہوئے یوتھیے بلوں سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟

نو مئی کو شرپسندانہ کارروائیوں کے بعد حکومت اور فوج کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان پر عائد کی گئی جس کے بعد پی ٹی آئی کے اکثر رہنماؤں کو نقصِ امن سمیت مختلف مقدمات کے تحت فوری گرفتار کیا گیا۔ اس دوران متعدد پی ٹی آئی رہنما روپوش ہوئے، جنھیں حراست میں لیا گیا ان میں سے اکثریت اس وقت بھی جیل میں ہے جبکہ متعدد رہنماؤں نے حراست میں چند روز گزارنے کے بعد پی ٹی آئی یا جماعت میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ان متعدد نمایاں رہنماؤں میں شیریں مزاری، اسد عمر، فواد چوہدری، پرویز خٹک، عثمان بزدار سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے رہنماؤں کی اکثریت پارٹی یا عہدہ چھوڑ چکی ہے، جس کے بانی اور چیئرمین عمران خان سمیت متعدد رہنما جیل میں ہیں اور ایک بڑی تعداد روپوش ہے، اس وقت چل کیسے رہی ہے اور اگر آنے والے دنوں میں صورتحال تبدیل نہیں ہوتی تو اس کی انتخابات کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟خیال رہے کہ عمرانڈو رہنماؤں میں سے ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو تاحال روپوش ہے۔ روپوش رہنماؤں میں مراد سعید، عمر ایوب، فرخ حبیب، حماد اظہر سمیت دیگر شامل ہیں۔یہ رہنما سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیان دیتے دکھائی دیتے ہیں، کچھ ٹی وی پر بھی نظر آتے ہیں لیکن یہ کہاں موجود ہیں یہ فی الحال خفیہ رکھا گیا ہے۔
تاہم ان رہنماؤں میں سے کچھ پی ٹی آئی کی روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی میٹنگ میں بقول ایک سینیئر رہنما ’کہاں سے شامل ہوتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن وہاں دن کے ایجنڈا پر بحث ہوتی ہے اور پھر مشاورت کے ساتھ فیصلے کیے جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کر دیا جاتا ہے۔‘ایسے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ شاید روپوش رہنما دراصل جماعت کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں جب پی ٹی آئی کے روپوش رہنما بھی گرفتار ہو رہے ہیں تو آنے والے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا ہو گی؟اس حوالے سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ الیکشن جب بھی ہوتے ہیں ظاہر ہے پی ٹی آئی سے الیکشن کمیشن کو بات تو کرنی پڑے گی۔انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہے گی، وہ الیکشن لڑنا چاہے گی لیکن ایسا اسے کٹے ہاتھوں سے کرنا پڑے گا۔‘انھوں نے پی ٹی آئی کے الیکشن سے متعلق پراعتماد رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت پی ٹی آئی کا یہ ماننا ہے کہ کٹے ہاتھوں کے ساتھ بھی اگر انھیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ اگر کھمبا بھی کھڑا کریں گے تو لوگ اس کو بھی ووٹ ڈالیں گے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی مقبولیت میں شہروں میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن گاؤں دیہاتوں میں جہاں دھڑے بندی کی سیاست ہوتی ہے وہاں بھی مہنگائی کے حوالے سے لوگوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں کی روپوش ہونے سے بطور جماعت ان پرسوالیہ نشان ہے، کیا یہ واقعی سیاسی رہنما ہیں یا شخصیت پرستی کی بنیاد پر عمران خان کی حمایت کرتے تھے۔‘ کیونکہ ’ماضی میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی دلیری سے جیلیں کاٹی ہیں اور ازیتیں برداشت کی ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں روپوشی والا پہلو نیا ہے۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی اس سے کچھ سیکھے گی۔‘انھوں نے کہا کہ یہ سنہ 2018 والی صورتحال ہے۔ ’تب ن لیگی رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات درج ہو رہے تھے، اب پی ٹی آئی رہنماؤں پر نقصِ امن کے ہو رہے ہیں۔‘عاصمہ شیرازی کے بقول ’اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات تو کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، میرا نہیں خیال وہ دروازہ کسی بھی جماعت کے لیے ہمیشہ کے لیے بند رہ سکتا ہے۔‘
دوسری جانب سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ یہ تو نہیں چاہے گی کہ عمران خان کی جماعت اکثریت لے کر آئے اور ان کی جانب سے کیے گئے فیصلوں میں تبدیلیاں کرے۔‘’یہ سنہ 2018 والی صورتحال ہے، بلکہ شاید اس سے بھی تھوڑی زیادہ سنگین ہے، جب ن لیگ کے رہنماؤں کے خلاف کیس چلائے گئے تھے اور انھیں جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔ میرے نزدیک ہر جماعت کو قومی اسمبلی میں سیٹیں ملیں گی لیکن کوئی بھی جماعت اکثریت نہیں لے پائے گی۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس سے ظاہر ہے کہ ہر جماعت کو لیول
پٹرول‘ بجلی اور گیس
پلیئنگ فیلڈ تو نہیں ملے گی۔‘