جیل سے رہائی کے لئے عمران خان کس کے ترلےکر رہے ہیں ؟

سائفر کیس میں قید عمران خان جیل کے عذاب سے کسی بھی طرح نجات حاصل کرنا چاھتے ھیں جس شخص کی کردار کشی کے لیے وہ ایک بھی لمحہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، آج مسلسل اسی کی منتیں ترلے کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف وہ جیل میں اپنے قتل اور اپنے خلاف ہونے والی نئی نئی سازشوں کے قصے بیان کر رہے ہیں۔ مگر ابھی تک ، حالات ان کے حق میں بالکل بھی نہیں ھیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے اپنی ایک تحریر میں کیا ھے ۔ وہ لکھتی ہیں کہ کہانی میں پہلے ہیرو کا کردار نبھانے والے عمران خان اب منفی کردار یعنی ولن بن چکے ہیں۔ ان کی پوزیشن میں 180 ڈگری کا موڑ آگیا ہے۔ عمران خان کے سیاسی کیریئر میں گذشتہ ڈیڑھ سال میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ بلاشبہ ان کی زندگی میں ہونے والے سب سے تلخ تجربات میں سے ایک ہیں، لیکن ان حالات کے ذمہ دار بھی شاید وہ خود ہیں ابھی کچھ عرصہ قبل ہی عمران خان طاقت کے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے سیاسی مخالفین کی بے بسی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آج وہ خود بے بسی کے عالم میں گاہے بگاہے لوگوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں ۔اب تک کی صورت حال کے مطابق حالات ان کے حق میں بالکل بھی نہیں ۔ وہ بجائے صبر و تحمل اور برا وقت گزرنے کا انتظار کرنے کے جلد از جلد جیل جیسے عذاب سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
غریدہ فاروقی کے مطابق ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی ریلیف کے متلاشی ہیں تو دوسری طرف وہ اب بھی الزامات اور اپنے خلاف ہونے والی نئی نئی سازشوں کے قصے بیان کر رہے ہیں۔ حال ہی میں جیل سے بھیجے گئے اپنے ایک نئے پیغام میں انہوں نے ایک بار پھر اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیل میں انہیں شاید آہستہ آہستہ زہر دے کر مارنے کی دوبارہ کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ انہیں جلاوطن ہونے کی بھی آفر ہے لیکن وہ کہیں نہیں جائیں گے، مگر پس پردہ تو کچھ اور ہی مذاکرات کی باتیں چل رہی ہیں۔ دوسری طرف اس وقت سیاست کا مرکزی کردار میاں نواز شریف بنے ھوئے ہیں۔ وہ کم و بیش چار سال بعد لندن میں علاج کی غرض سے رہنے کے بعد نہ صرف پاکستان واپس آئے ہیں بلکہ سیاست میں بھی بھرپور انداز سے ایک بار پھر انٹری ماری ہے یوں لگ رہا ہے کہ انہیں چوتھی بار ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا اشارہ بھی واضح انداز میں مل چکا ہے، لیکن حالات اس قدر بھی آسان اور سادہ نہیں ہیں۔
غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ نواز شریف خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھلے ہی ان کے لیے میدان خالی کیا جا رہا ہے اور ان کی واپسی کے لیے مقتدرہ قوتوں سے ’ہاں‘ بھی شاید مل چکی ہے لیکن تاحال ان کا چوتھی بار وزیراعظم کی شیروانی پہننا انتہائی پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔ آج کے پاکستان میں اور چار سال سے قبل کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت نواز شریف ایک مکمل الگ روپ میں تھے اور اب ان کی واپسی کے خطاب سے پتہ لگ چکا ہے کہ انہوں نے اپنے بیانیے میں بڑا کمپرومائز کیا ہے اور جن قوتوں کے خلاف وہ سڑکوں پر نکلے تھے، انہی کے سامنے بظاہر گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ جس طرح سے ان کی واپسی پر انہیں ریلیف در ریلیف مل رہا ہے، جو کبھی ان کے سیاسی مخالف عمران خان کو ملتا تھا، جس پر مسلم لیگ ن عدلیہ پر جانبدار ہونے کی رَٹ لگائے رکھتی تھی، آج بھی وہی مسلم لیگ ن ہے اور وہی عدالتیں اور فیصلے بھی تقریباً وہی ہیں لیکن آج چونکہ فوائد لینے والی مسلم لیگ ن خود ہے تو عدلیہ پر تنقید کے بجائے لیگی کارکنان مٹھائیاں باٹنے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں جبکہ کل جو لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، وہ آج عدلیہ اور مقتدرہ قوتوں پر تنقید کرکے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ اب بھی اگر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو ملنے والی ریلیف پر تنقید کر رہی ہیں تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کے لیے ہے۔ ان سب کو غم صرف اس بات کا ہے کہ نواز شریف کو جو ریلیف مل رہی ہے یا ان کے لیے جو خصوصی اقدامات ہو رہے ہیں، وہ ہمیں کیوں نہیں مل رہی۔ عام آدمی کی فکر سیاست دان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں۔
غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ نوازشریف جب سے واپس آئے ہیں، ان کی جانب سے جلسے کے بعد کوئی سیاسی سرگرمی یا بیان منظر عام پر نہیں آیا۔ ان کے سیاسی مخالفین سمیت اکثر حلقے ان سے بار بار الیکشن سے متعلق خاموشی پر سوال کر رہے ہیں؟ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف باقی جماعتوں کی طرح الیکشن کمیشن پر انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے دباؤ کیوں نہیں ڈال رہے۔ نواز شریف کی اس اہم موضوع پر خاموشی کئی سوالات پیدا کر رہی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ شاید مسلم لیگ ن تب تک الیکشن میں نہیں جانا چاہتی جب تک نواز شریف کو مکمل کلین چٹ نہیں ملتی اور وہ اس کے لیے الیکشن میں تاخیر کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں الیکشن گم ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جنوری میں انتخابات کروانےکا اعلان تو کردیا لیکن تاحال کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں دے رہے۔ ذرائع کے ملک میں عام انتخابات کے لیے 28 جنوری 2024 بروز اتوار کی تاریخ متوقع ہے اور امکان ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو ایک دو روز میں تحریری طور پر آگاہ کر دےگا۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے تاخیر کا خدشہ ختم ہو جائے گا لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دے رہی۔
غریدہ فاروقی کے مطابق پاکستان کے موجودہ سیاسی عدم استحکام کا مناسب حل تو الیکشن ہی ہیں لیکن الیکشن کے بعد کیا صورت حال ہوگی، یہ انتہائی اہمیت کا حامل سوال ہے۔ اگر موجودہ حالات کے تناظر میں مسلم لیگ ن الیکشن جیت جاتی ہے تو کیا ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہے اور اسی طرح کیا مسلم لیگ ن معاشی استحکام بھی لاسکے گی؟ واضح رہے کہ گذشتہ 16 ماہ میں بھی مسلم لیگ ن معیشت کی بحالی کا صرف دعویٰ ہی کر رہی تھی۔ وقت آگیا ہے کہ سب کو مل کر پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا، وگرنہ جس طرح کے حالات ہیں، سیاست دانوں سے تو لوگوں کی توقعات تقریباً ختم ہی ہوچکی ہیں۔ عوام اب روٹین کے سیاسی بیانات سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب پاکستان کو قرار واقعی سیاسی و قومی حکومت کی ضرورت ہے۔