کپتان پریشانی کا شکار، عمرانڈوز بھی ساتھ چھوڑنے لگے

عمران خان کی چودہ مئی کو الیکشن نہ ہونے کی صورت میں سڑکوں پر آنے کی دھمکی کی گیدڑ بھبکی کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ عمران خان کی قلابازیوں اور غیر دانشمندانہ فیصلوں نے نہ صرف پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کے دل مردہ کر دیئے ہیں۔ بلکہ ان کو حد درجہ تھکا بھی دیا ہے۔ خاص طور پر اب وہ سڑکوں پر مار کھانے کے لئے بالکل تیار دکھائی نہیں دیتے۔ عمرانڈوز کو بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکالنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کی ناکامیوں کا سلسلہ پچیس مئی 2022 سے چلا آرہا ہے۔تازہ فلاپ شو یکم مئی کا تھا۔ اس روز پارٹی چیئرمین عمران خان کی کال پر لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں مزدوروں کے نام پر سیاسی ریلیاں نکالی گئیں۔ لاہور کی ریلی میں اگرچہ عمران خان خود شریک تھے۔ اس کے باوجود شرکا کی تعداد محض پانچ سے چھ ہزار تک تھی۔ اس کی گواہی خود پی ٹی آئی کے اپنے لوگوں نے بھی دی۔ لگ بھگ سوا کروڑ آبادی والے شہر میں یہ تعداد اونٹ کے منہ میں زیرے جتنی بھی نہیں تھی۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ملک کی سب سے مقبول سیاسی پارٹی کا لیبل لگا ہوا ہے جب حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی ریلی سے دگنا کراؤڈ نصیبو لال اپنے شو میں جمع کر لیتی ہے۔

عوامی شو کے سلسلے میں سب سے بری حالت راولپنڈی میں رہی۔ جہاں بمشکل دو سے ڈھائی ہزار لوگوں کو جمع کیا جا سکا۔ ریلی سے پی ٹی آئی کے لوگوں کی بیزاری کا عالم یہ تھا کہ جب راولپنڈی میں لنگڑی لولی ریلی نکالی جارہی تھی تو ٹھیک اس دوران اسلام آباد میں پارٹی کے مرکزی دفتر ’’پی ٹی آئی سیکریٹریٹ‘‘ میں لڈو کھیلی جارہی تھی۔

واضح رہے کہ راولپنڈی ریلی کی قیادت شاہ محمود قریشی اور اسلام آباد ریجن پی ٹی آئی کے صدر علی نواز اعوان نے کرنی تھی۔ لیکن لگتا ہے کہ شاید وہ بھی آئے روز کی ریلیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ دونوں پی ٹی آئی رہنما انتہائی تاخیر سے ریلی کے مقام پر پہنچے۔ تب تک ریلی کے شرکا کی کچھ تعداد مایوس ہو کر واپس جا چکی تھی۔

ذرائع کے مطابق ناکام ریلیوں پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے خاصی برہمی کا اظہار کیا۔ راولپنڈی ریلی کے حوالے سے انہیں یہ باور کرایا گیا کہ انتظامیہ نے چونکہ کنٹینر اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے متعدد راستے بند کر دیئے تھے۔ اس لئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ریلی میں شریک نہ ہو سکی۔ حالانکہ یہ جواز محض ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے تھا۔ ریلی میں شرکا کی کم تعداد کی ایک وجہ تو کارکنوں کی بیزاری تھی اور دوسرا سبب انتظامیہ کی جانب سے غیر متوقع کریک ڈاؤن کا خوف تھا۔ حالانکہ اسلام آباد پولیس نے صرف وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے روکنے کا انتباہ جاری کیا تھا۔

ایک روز پہلے ہی اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی تھی اور اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد کی حدود میں کسی بھی جلسے جلوس اور اجتماع کی اجازت نہیں اور یہ کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اسلام آباد پولیس کا انتباہ ان معنوں میں انتہائی موثر ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی ریلی کے شرکا نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کرنے کی جرات نہیں کی۔

پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار کے بقول جڑواں شہروں میں پی ٹی آئی کے ورکرز کو پہلے ہی تلخ تجربہ ہو چکا ہے جب جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی پیشی کے موقع پر پولیس کریک ڈاؤن کے دوران درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر اب بھی مقدمات بھگت رہے ہیں۔ عہدیدار کے بقول اب کوئی بھی مار کھانے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ چیئرمین عمران خان کی بے سمت پالیسیاں ہیں۔ جس کے تحت احتجاجی تحریک اور اجتماع مسلسل ناکامی سے دو چار اور غیر موثر ثابت ہو رہے ہیں۔

راولپنڈی میں ناکام ترین ریلی کے بعد کارکنوں کی بیزاری اور خوف کا اثر زائل کرنے کی خاطر اسد عمر کو بھیجا گیا۔ جنہوں نے ’’قربانی‘‘ دینے والے کارکنوں سے ملاقات کی اور ان کے ’’جذبے‘‘ کو سراہا۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ کوشش موثر ثابت نہیں ہوگی کہ کارکنوں کے دل میں پارٹی قیادت سے بیزاری کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی رہنماؤں کی اکثریت اپنی کھال بچا کر کارکنوں کو ایندھن بنا رہی ہے۔

پشاور میں ریلی کی صورت حال راولپنڈی سے بھی زیادہ بدتر رہی، اور محض چند سو افراد ہی اکٹھے ہو پائے۔جس کی وجہ بھی مرکزی قائدین کی عدم دلچسپی تھی۔ یہاں ریلی کی قیادت پرویز خٹک، اسد قیصر کو سونپی گئی تھی۔ دونوں رہنما تاخیر سے پہنچے اور بارش میں بھیگتے ریلی کے چند سو کارکنان ان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ دونوں رہنما پہنچے بھی تو ریلی سے انتہائی مختصر خطاب کے بعد چلتے بنے۔ یوں پشاور کے گلبہار چوک سے شروع ہونے والی تحریک انصاف کی ریلی ناکامیوں کا ایک اور داغ لئے چوک یادگار پر اختتام پذیر ہو گئی۔

دلچسپ امر ہے کہ عمران خان نے یکم مئی کو کراچی میں ریلی کی کال نہیں دی تھی۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کی گرفتاری کا اثر تاحال صوبائی پارٹی قیادت پر باقی ہے۔ اور وہ ذہنی طور پر کسی ایسی سرگرمی کے لئے تیار نہیں کہ جس میں پولیس کارروائی کا خدشہ ہو۔ لہٰذا ممکنہ طور پر ریلی کے حوالے سے کراچی کی پارٹی قیادت نے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہوں۔

عوامی طاقت کے مظاہرے میں ناکامیوں کا سلسلہ گزشتہ برس پچیس مئی کو شروع ہوا تھا جب فلاپ لانگ مارچ پر عمران خان چھ دن میں واپس آنے کا اعلان کرکے چھپ گئے تھے اور مہینوں غائب رہنے کے بعد نومبر میں انہوں نے دوبارہ قسطوں میں لانگ مارچ کی کوشش کی۔ کچھوے کی رفتار سے اسلام آباد کی طرف بڑھتا ڈیڑھ دو ہزار افراد کا قافلہ وزیر آباد پہنچا تو فائرنگ کے واقعہ میں زخمی ہو کر عمران خان اسپتال پہنچ گئے اور ناکامی سے دو چار لانگ مارچ آخر کار اختتام پذیر ہوگیا۔

بعدازاں مینار پاکستان پر ماضی جیسے جلسے کی کوشش بھی رسوائی دے گئی۔ قصہ مختصر اپریل دو ہزار بائیس کو اپنی معزولی کے بعد سے پچھلے ایک برس کے دوران عمران خان کوئی قابل ذکر عوامی شو کرنے یا مؤثر اجتجاجی تحریک چلانے میں مسلسل ناکام ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب امپائروں کا نیوٹرل ہونا اور دوسری وجہ پارٹی کارکنوں کی بڑھتی عدم دلچسپی ہے۔

Related Articles

Back to top button