عمران خان نے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کو کاروبار کیسے بنایا

عمران خان کی جانب تحریک انصاف کے اسمبلی ٹکٹ ذاتی طور پر جاری کرنا نہ تو کوئی جمہوری طریقہ ہے اور نہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں بلکہ اس سے کرپشن اور اقربا پروری کا زیادہ شور مچا ہے۔عمران خان کے فیصلوں کے خلاف ان کی اپنی پارٹی میں اختلافات و احتجاج ثابت کر رہا ہے کہ ایک آدمی عقل کل نہیں ہو سکتا، اس سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔امیر اور بااثر لوگ پیسے کے زور پر پارٹی ٹکٹیں حاصل کر لیتےہیں اسی وجہ سے سیاست ایک کاروبار بن گئی ہے. ان خیالات کا اظہار سینئر شافی اور کالم نگار مزمل سہروردی نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے . وہ کہتے ہیں کہ آجکل تحریک انصاف میں بہت شور ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کے بجائے پیسے کو ترجیح دی گئی ہے۔ لوگوں نے پیسے دے کر ٹکٹیں حاصل کی ہیں۔ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ ارب اکٹھے کیے گئے ہیں۔

اس حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو بھی سامنے آئی ہے، اسی طرح سینیٹر اعجاز چوہدری کی بھی ایک آڈیو سامنے آئی ہے۔ پھر راول پنڈی سے بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں رشوت اور سفارش کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ جہلم سے بھی یہی آوازیں سامنے آرہی ہیں۔

اوکاڑہ میں وٹو خاندان بھی یہی کہہ رہا ہے۔ اس لیے ہر شہر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک شور نظرا ٓرہا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کر رہے ہیں کہ ٹکٹیں میرٹ پر نہیں دی گئی ہیں۔ شور مچ رہا ہے ہے کہ پیسے چلے ہیں۔ مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پارٹی کے مقامی کارکنان کی رائے سے ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ مقامی تنظیم ہی فیصلہ کرتی ہے کہ اس علاقے سے کون الیکشن لڑے گا۔ پاکستان میں تو حلقے سے باہر بھی ٹکٹ دے دیے جاتے ہیں جو دنیا کی مضبوط جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔ ٹکٹو ں کی تقسیم میں پارٹی قیادت کے لامحدود اختیارات نے سیاسی جماعتوں میں بادشاہت قائم کر دی ہے۔ بادشاہی اختیارات نے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو ختم کر دیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کو ذاتی کمپنیوں میں تبدیل کر دیا ہے. مرکزی پارلیمانی بورڈ بھی بادشاہت کا ہی شکل ہے۔ جب تک مقامی پارلیمانی بورڈ نہیں بنائے جائیں گے بادشاہت ختم نہیں ہوگی۔ عمران خان کا یہ موقف کی سب ٹکٹ میں خود دوں گا بھی کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ اس کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ اس سے کرپشن اور اقربا پروری کا زیادہ شور سامنے آیا ہے۔
عمران خان کے فیصلوں کے خلاف ان کی اپنی پارٹی میں اختلافات و احتجاج ثابت کر رہا ہے کہ ایک آدمی عقل کل نہیں ہو سکتا، اس سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت میں الیکشن کرائیں گے لیکن وہ ناکام رہے۔ کیونکہ انتخابات میں کارکنوں نے ان کے حمایت یافتہ امیدواران کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا، وہ خود اپنی جماعت میں ہارتے نظر آئے۔ اس لیے انھوں نے انتخابات کرانے بند کر دیے ۔ ان کے اپنے الیکشن کمیشن نے پیسے چلنے کا اعلان کر دیا۔

بلکہ پیسے چلنے کے ثبوت دینے والے الیکشن کمیشن کو ہی فارغ کر دیا گیا۔ بات صرف تحریک انصاف کی نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں یہی صورتحال ہے۔ عمران خان نے اس کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی یہ سب نہیں کر سکے ۔ ٹکٹ دیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے وسائل ہیں۔ کارکن کو یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ اگر تمہیں ٹکٹ دے بھی دیں تو الیکشن کا خرچہ کہاں سے کرو گے۔ تمھارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہے۔ پیسے کہاں سے لاؤ گے۔ اس لیے پیسے والے کو ٹکٹ لینے دو تاکہ سیٹ جیتی جا سکے۔ پیسے کے اس کلچر نے سیاست کو آلودہ کر دیا ہے جب تک سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں آئے گی ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ مزمل سہروردی لکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر کوئی کوڈ آف کنڈکٹ لاگو نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ضابطے اور قانون کی پابند نہیں ہیں، کارکنوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم ہر اہم موقع پر کارکنان کا استحصال دیکھتے ہیں۔سالہا سال کی محنت کے بعد بھی سیاسی کارکن کی بات ہی کوئی نہیں سنتا ۔ اس کی سیاسی ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے، اس کی قربانیوں کا کوئی دام نہیں ہے۔ وہ کرسیاں لگاتے ہوئے مر جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے سرمایہ دارآگے نکل جاتے ہیں۔ جب تک ٹکٹوں کی شفاف تقسیم نہیں ہو گی، تب تک پیسے کی سیاست ختم نہیں ہوگی۔جو پیسے دے کر ٹکٹ لیتے ہیں، وہ پیسے کماتے بھی ہیں۔ امیر اور بااثر لوگوں نے ٹکٹوں کو ایک کاروبار بنا لیا ہے۔

جس کی وجہ سے سیاست بھی ایک کاروبار بن گئی ہے۔ اس رحجان کو ختم کیے بغیر سیاست کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔

Related Articles

Back to top button