عمران خان کی جلد گرفتاری کا امکان، تمام تیاریاں مکمل

اتحادی حکومت نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد پاگل سانڈھ کی طرح ہر کسی پر چڑھ دوڑنے کیلئے بے تاب عمران خان کے پاگل پن کا علاج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اداروں کے افسران پر الزامات کے بعد حکمران اتحاد نے عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کا گرین سگنل دے دیا۔
عمران خان کے اداروں کے سینئر افسران پر الزام تراشیوں اور حکمران جماعت پر لفظی گولہ باری اور بیانات کے بعد سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے، جس کے بعد حکمران اتحاد نے پی ٹی آئی کی ممکنہ احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔حکمران اتحاد کی قیادت کا حکومت کو عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کی گرفتاری کا گرین سگنل دے دیا ہے۔
عمران خان کے اعلی سیکیورٹی ذمہ دارانہ پر بے بنیاد الزامات کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اب عمران خان کو رعایت دینے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان کے الزامات کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نےایک بیان میں کہا کہ عمران نیازی کی سیکیورٹی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیاست بازی کیلئے میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزامات عائد کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی جبکہ دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ایک شخص اداروں کو بد نام کرنے کی ہر حد کو عبور کرچکا ہے جسے اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ایک بیان میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اب بس بہت ہوگیا، غیرملکی ایجنٹ کی لاہور میں ہونے والی تقریر سننے کے بعد کوئی محب وطن اس کی پیروی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میجر جنرل فیصل نصیر سمیت فوج کے افسران پر الزامات دراصل ادارے پر حملہ ہے جس کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے۔
تاہم اب ذرائع کا دعوی ہے کہ اتحادی حکومت نے عمران خان کو مزید رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد شرپسند عمرانڈوز کی گرفتاریوں کے لیے ٹاسک وزارت داخلہ کو سونپ دیا ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ وزارت داخلہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں نیب،ایف آئی اے اور مقامی پولیس کی مدد سے کرے گی جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمن عمران خان کی گرفتاری نیب یا ایف آئی اے کے ذریعے عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کی ممکنہ احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے ملک بھر سے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کی لسٹیں بھی تیار کرلی گئیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق پنجاب سے فواد چوہدری ، اسد عمر، اعجاز چوہدری، شاہ محمود قریشی، عثمان بزدار، ڈاکٹر یاسمین راشد ، میاں اسلم اقبال، فرخ حبیب، میاں محمودالرشید سمیت دیگر کی گرفتاریاں متوقع ہیں۔خیبرپختونخوا سے پرویز خٹک، اسد قیصر، عاطف خان، سابق وزیراعلی کے پی کے اور انکی کابینہ کے ممبران سمیت دیگر جبکہ سندھ سے حلیم عادل شیخ، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل،۔علی زیدی سمیت دیگر کے نام گرفتاری کی لسٹوں میں شامل ہیں۔
دوسری جانب عمران خان کی جانب سے سیکیورٹی ذمہ داران پر الزام تراشیوں کے خلاف پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ جہاں ایک طرف سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے عمران خان کے الزامات کی مذمت کی ہے اور کہاکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور پی ٹی آئی کے متعدد لیڈر پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی کے افسروں کیخلاف بالعموم اور ایک سینئر افسر کیخلاف بالخصوص ہرزہ سرائی کر رہے ہیں وہ اور انکے رفقاء پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں چیئرمین پی ٹی آئی عوام اور افواج کے درمیان رشتوں میں بگاڑو دراڑ ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں ‘ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز آئی ایس پی آر کا بیان اس امر کا شاہد ہے کہ عمران خان اور اُنکے رفقاء جس قسم کی زبان مسلح افواج کیخلاف استعمال کر رہے ہیں‘ ایک سال کے عرصے میں اُنکے بیانات سن سن کر مسلح افواج کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ہے۔ ایک وڈیو انٹرویو میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے بعض لیڈر عوام اور افواج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلح افواج اور پاکستانی قوم کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ ہے اُس کو نقصان پہنچانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تمام محب وطن سیاسی جماعتوں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ میں آئی ایس پی آر کے بیان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ الزامات کے حل کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ایف آئی آر درج کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اس قانونی راستے کی حمایت کرنے والے ادارے کا یہ مثبت قدم ہو گا۔
واضح رہے کہ آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں جو من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق تمام الزامات انتہائی افسوس ناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔