جسٹس بندیال کے فیصلوں نے عمران خان کا دھڑن تختہ کیسے کیا؟

سینئر صحافی اور کالم نگار مزمل سہروری نے کہا ھے کہ سبکدوش عمرانڈو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے عمران خان کے لئے بے لوث خدمات اور اندھی حمایت کے باوجود تحریک انصاف ان سے خوش نہیں کیوں کہ ان کے خیال میں عمر عطا بندیال کے ھوتے ہوئے عمران خان کو کرپشن کا مجرم قرار دیا گیا اور وہ آج بھی جیل میں ھیں ۔ اپنے ایک کالم میں مزمل سہروری کا کہنا ھے کہ عمومی تاثر یہی تھا کہ رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ،سابق چیف جسٹس گلزار اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ایسا ہی نرم گوشہ رکھتے تھے ان کے نرم گوشے کا عمران خان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوا اور تحریک انصاف اور عمران خان آج بھی ان سابق چیف جسٹس صاحبان کی قدر کرتے ہیں ۔ ان پر کسی بھی قسم کے سیاسی حملے کا تحریک انصاف بھر پور جواب بھی دیتی ہے۔لیکن رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی تمام تر حمایت کے باوجود تحریک انصاف اور عمران خان شاید ان سے خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے عمران خان کو نیب کی حراست سے رہا کرا دیا تھا، انھیں کورٹ روم میں گڈ ٹو سی یو بھی کہا تھا جس پر شدید تنقید کا سامنا بھی رہا، وہ وضاحتیں بھی دیتے رہے۔

لیکن شاید یہ کافی نہ تھا ۔ عمران خان آج بھی جیل میں ہیں۔ تحریک انصاف کے خیال میں عمر عطا توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وہ مدد نہیں کر سکے جو عمران خان چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ آج نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ سزا یافتہ اور نا اہل ہیں۔ اگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال مقدمہ کو ناقابل سماعت قرار دے دیتے تو آج وہ سزا یافتہ نہ ہوتے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں تحریک انصاف کے دوست بھی انھیں ایک کمزور چیف جسٹس ہی قرار دیتے ہیں۔مزمل سہروری کا کہنا ھے کہ عمر عطا بندیال پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ دیکر وہاں الیکشن بھی نہ کرا سکے۔ بہتر یہی تھا کہ وہ سو موٹو نہ لیتے۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیتے، پھر جب کیس سپریم کورٹ میں آتا تو سماعت کرتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ پھر فل کورٹ نہیں بنایا۔ انھوں نے اگر 14مئی کو انتخاب کا حکم دے دیا تھا تو پھر وہ انتخاب نہیں کروا سکے۔ وہ نہ صرف انتخاب کروانے میں ناکام رہے بلکہ انتخاب نہ کرانے کی ذمے داری بھی فکس کرنے میں ناکام رہے۔
مزمل سہروری کہتے ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال تحریک انصاف اور عمران خان کو ہر ممکن ریلیف دیا لیکن خان صاحب اور تحریک انصاف نے سب کچھ ضایع کر دیا۔ پنجاب کی حکومت تحریک انصاف اور پرویز الٰہی کو دی گئی لیکن وہ حکومت چلانے میں ناکام رھے اور پھر اسمبلی اور حکومت توڑ دی۔ یوں تحریک انصاف کی اپنی کمزوری بھی کھل کر سامنے آگئی، وہ ہم خیال ججز کو عوامی سپورٹ فراہم کرنے میں ناکام رہے، عدلیہ آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے جو کچھ کرسکتی تھی، وہ کیا لیکن سیاسی میدان میں پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانا تحریک انصاف کی قیادت کا کام تھا جو وہ سیاسی اور جمہوری انداز میں نہیں کر پائی ۔

مزمل سہروری کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء ابندیال اب ریٹائر ہو کر گھر جا چکے ہیں۔ جاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اب ایک ڈوبتا ہوا سورج ہے۔ بہر حال ہر سورج کو آخر ڈوب ہی جانا ہوتا ہے۔ سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ سورج نے اپنے جوبن پر فضا اور زمین کوکتنی روشنی دی۔ جو سورج اپنے جوبن پر بھی بادلوں میں چھپ جائے اور روشنی نہ دے سکے۔ اس کے ڈوبنے اور چمکنے میں کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رخصت ہوتے ہوئے کوئی فل کورٹ ریفرنس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کی روایت ہے کہ بردار جج کو جاتے ہوئے فل کورٹ ریفرنس دیا جاتا ہے، جہاں اس کے بہترین فیصلوں کا بھی ذکر ہوتا ہے اور اس کی عدلیہ کے لیے خدمات پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ لیکن سبکدوش چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے لیے کوئی فل کورٹ ریفرنس نہیں ہوا۔ کیا اس کی یہ وجہ تھی کہ ان کی لیڈرشپ میں عدلیہ کی کوئی مثالی کارکردگی ہی نہیں تھی؟ کیا اس کی وجہ سپریم کورٹ میں تقسیم تھی؟ کیا رخصت ہونے والے چیف جسٹس اپنے ساتھی برادر ججز کی اپنے بارے میں رائے سننا نہیں چاہتے تھے؟ ۔

مزمل سہروری کے مطابق ہم خیال بنچ بنانے کی روایت نے جسٹس بندیال کو اپنے ساتھیوں میں غیر مقبول کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تقریبا تمام اہم بنچز سے باہر رکھا۔ ایک عمومی رائے یہی تھی کہ سابق چیف جسٹس نے انھیں عملاً کارنر کر کے رکھا۔ وہ سیاسی چیف جسٹس کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ لیکن وہ پہلے سیاسی چیف جسٹس نہیں تھے، ان سے پہلے بھی سیاسی چیف جسٹس تھے۔ تا ہم ان میں اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال میں بنیادی فرق یہی رہا کہ ان کے دور میں سپریم کورٹ میں تقسیم اس قدر نمایاں نہیں تھی۔ غور کیا جائے تو سبکدوش چیف جسٹس عمر عطابندیال، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور سابق چیف جسٹس گلزار کی نسبت کوئی زیادہ سیاسی نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ متنازعہ زیادہ ہو گئے۔ انھیں سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم کھا گئی۔ اگر سپریم کورٹ کے ساتھی ججز ساتھ رہتے تو شاید یہ صورتحال نہ ہوتی۔اگر ہم خیال بنچز میں جونئیر ججز کے بجائے سینئرججز ساتھ ہوتے تو شاید اتنی تنقید نہ ہوتی۔ اگر بڑے فیصلوں میں سینئیر ججز ساتھ کھڑے نظر آتے تو ان کی ساکھ بہت بہتر ہوتی۔

مزمل سہروری کہتے ہیں کہ جب فل کورٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا اور فل کورٹ بنا دیا جاتا تو کسی کو آج کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔آج بھی تو فل کورٹ بن گیا ہے ، سوال یہ ہے کہ پھر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ کیوں نہیں بنارہے تھے؟ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن فل کورٹ اجلا س بھی بلا سکتے ہیں اور پریکٹس اینڈ پروسجیر بل پرفل کورٹ بنا سکتے ہیں تو سابق چیف جسٹس کے لیے یہ کیوں ممکن نہیں تھا؟ دیکھا جائے تو انھوں نے غیر ضروری طور پر فل کورٹ کو ایک

ٹی10 لیگ میں8افراد پر فکسنگ کے الزامات ، آئی سی سی کا ایکشن

تنازعہ بنا لیا تھا۔

Related Articles

Back to top button