فوج کی تنخواہ میں 20 فیصد اضافے کا مطالبہ پریشان کن

ایک ایسے وقت میں کہ جب کرونا وائرس کے باعث ملکی معیشت شدید مشکلات کے بھنور میں پھنسی نظر آتی یے، افواج پاکستان کی جانب سے تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ اب حکومت کے لئے مشکل یہ ہے کہ ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال میں آخر کس طرح فوجی بجٹ میں اضافے کے لیے 64 ارب روپے کا بندوبست کیا جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی وزارت دفاع نے افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارت خزانہ کو ایک خط کے ذریعے کہا ہے کہ 2016 سے 2019 کے دوران پاکستانی فوجی اہلکاروں اور افسران کی تنخواہ میں عارضی اضافے یعنی ایڈہاک الاؤنس کو مستقل طور پر بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا دیا جائے اور ساتھ ہی تنخواہوں میں 20 فیصد کا اضافہ بھی کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو 2016، 2017 اور 2018 کے مالیاتی بجٹ میں دس، دس فیصد کا ایڈہاک ریلیف دیا گیا جبکہ 2019 – 20 کے مالیاتی سال میں یہ ریلیف پانچ فیصد تھا۔ گزشتہ چند برسوں کی ایڈہاک فنڈ کو تنخواہ کا حصہ بنا کر مجموعی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن 2015 کے بعد بنیادی تنخواہ میں کسی بھی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ صرف ایڈہاک ریلیف دیا گیا جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بنیادی تنخواہ میں اضافے کی وجہ سے تنخواہ کے ساتھ منسلک دیگر مراعات، جن میں پینشن بھی شامل ہے، میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو قومی خزانے پر بڑے بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
وزارت دفاع کے خط میں حکومت کو اس اضافے سے بجٹ میں اضافے کا تخمینہ بھی دیا گیا ہے جو کہ 63 ارب 69 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس افواج نے ملک کی معاشی صورتحال کے باعث دفاعی بجٹ میں اضافے سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تها۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تها کہ وہ ایڈہاک ریلیف کی صورت میں افواج کے مختلف رینکس کی الاؤنسز میں پانچ سے دس فیصد اضافہ کریں گے۔ حیران کن طور پر فوج کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب عالمی مالیاتی ادارے نے اپریل 2019 میں پاکستان کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی کہ ملک میں رواں مالی سال کے دوران ملکی معیشت کا حجم ڈیڑھ فیصد کم ہوگا جبکہ گذشتہ برس اس میں 3.3 فیصد کی بڑھوتری دیکھی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کے علاوہ عالمی بینک نے بھی ملک کی معاشی ترقی کی شرح میں 1.3 فیصد تنزلی کی پیشگوئی کی ہے۔
خیال رہے کہ ملک کے مجموعی دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ مسلح افواج کے فوجی و سول اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر الاؤنسز کے لیے مختص ہے، تاہم ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی پینشن اس کا حصہ نہیں ہوتی اور اس کو سویلین بجٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ایک معمول کی کارروائی قرار دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ایک اہلکار کے مطابق ہر سال بجٹ پیش کیے جانے سے پہلے وزارت خزانہ ’پے کمیشن‘ سے تجاویز مانگتی ہے۔ تمام حکومتی وزارتیں اور محکمے اس سلسلے میں اپنی سفارشات کا ڈرافٹ بهیجتے ہیں۔ ان سفارشات پر حتمی فیصلے سے قبل بحث کی جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اسی سلسلے میں وزارت دفاع نے بهی وزارت خزانہ کو ڈرافٹ بهیجا ہے۔
جوائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹرز کی جانب سے تینوں سروسز سے مشاورت کے بعد وزارت دفاع کو لکھے گئے اس خط کے متن کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کے باعث فوجی اہلکاروں کو ان کی موجودہ تنخواہ میں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
وزارت دفاع کے خط کے مطابق فوجی اہلکار اور افسران روپے کی قدر میں کمی، کنزیومر پرائس انڈیکس، یوٹیلٹی بلوں میں اضافے اور مہنگائی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بریگیڈیئر کے رینک تک یعنی گریڈ 17 سے 20 کی تنخواہ میں پانچ فیصد ایڈ ہاک ریلیف اور گریڈ ایک سے سولہ تک میں دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا تها تاہم گریڈ اکیس اور بائیس میں اضافہ نہیں کیا گیا تها۔ ماضی میں مسلح افواج کے ارکان کی تنخواہوں میں بڑا اضافہ دو مواقع پر کیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فروری 1999 میں کارگل کا دورہ کیا اور انھوں نے اس سال اعلان کیا تها کہ فوجیوں کی تنخواہ میں بڑا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلح افواج کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا تها۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دلیل دی تهی کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں۔
افواج پاکستان نے مختلف عوامل کو بنیاد پر تنخواہوں میں اصافے کا مطالبہ تو کردیا لیکن ایسے میں یہ سوال بڑا اہم ہے کہ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت آکر کیونکر اس چیلنج سے نمٹ سکتی ہے۔ اس حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کی واپسی اور دفاع کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف ہوتا ہے۔وزارت خزانہ عموماً ہر سال مجموعی قومی پیداوار کا ڈھائی فیصد دفاع کے لیے رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ سپری یعنی سٹاک ہام انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں دفاعی بجٹ کی شرح 2015 سے 18 کے درمیان جی ڈی پی کے 3 سے 4 فیصد کے درمیان رہی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب دفاعی بجٹ ملک کے جی ڈی پی کا سات فیصد تھا تاہم اکیسویں صدی میں داخلے کے ساتھ اس میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی۔
معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ مشکل معاشی صورتحال کے باوجود اس بار حکومت پر تمام شعبوں کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا دباؤ ہوگا جس کی بنیادی وجہ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں ہونے والا ہوشربا اضافہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضے لینے کے باعث ملک میں مہنگائی کی شرح میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین، چاہے وہ مسلح افواج کا حصہ ہوں یا نہیں، شدید متاثر ہوئے ہیں۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button