کیا عمران فیض حمید کو اگلا فوجی سربراہ بنانے والے ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی کے مطابق قیاس کیا جا رہا ہے کہ اپریل کے مہینے میں عمران خان جنرل فیض حمید کو اسٹیبلشمنٹ کا اگلا سربراہ بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے عمران خان کو عروج دلایا اور اب تک ان کا تحفظ کیا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو اپوزیشن بوریا بستر اٹھا کر گھر جائے گی اور عمران خان کو اگلے سال مزید پانچ سال کے ”انتخاب“ کی یقین دہانی مل جائے گی۔ لیکن اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو تقرریوں، ترقیوں، تبادلوں یا توسیع کے حوالے سے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تو اس کا حکومت کے ساتھ تصادم ہوسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس صورت میں اپوزیشن کا بھی فائدہ ہو۔ اس لیے اگر حزب اختلاف نے کوئی قدم اٹھانا ہے تواس کا موقع اب ہے کیونکہ اور دو مہینے بعد ایسا نہیں ہو پائے گا۔
فرائیڈے ٹائمز کیلئے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمان شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پچاس دنوں میں اپوزیشن کا قلع قمع ہو جائے گا۔ لیکن وہ پچاس دنوں کی وضاحت نہیں کرتے کہ ان سے مراد کون سے دن ہیں، تاوقتیکہ ان کا مطلب ”مارچ کے آخری ایام“ ہوں۔ چونکہ پی ڈی ایم کا اسلام آباد تک ”لانگ مارچ” 23 مارچ کو طے شدہ ہے۔
گویا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ عمران خان کو ہٹانے میں ناکام رہ کر ہوا میں بکھر جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیخ رشید نے اپوزیشن کی متوقع ناکامی کی وجہ بھی بتائی ہے۔ انکا کہنا یے کہ ”اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے۔“ وہ اپنے حامیوں کو یقین دلاتے ہیں، لیکن اسی سانس میں اس کے غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں فطری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بیک وقت غیر جانبدار اور حکومت کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہے؟
بقول سیٹھی، یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حزب اختلاف سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے، یعنی آنے والے دنوں میں جب اپوزیشن قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھائے گی تو اسٹیبلشمنٹ حکومت کا ہاتھ نہیں تھامے گی اور حکومت کے اتحادی حزب اختلاف کی صفوں میں آ جائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جائے گا، تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ یہاں دلیل یہ ہے کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے عمران حکومت کو سہارا دینے کے لیے اتحادیوں کو اس کے گرد جمع کیا تھا، اس لیے اب اس کی غیرجانبداری اُنھیں اپوزیشن کے ساتھ نیا الائنس قائم کرنے کی آزادی دے گی۔
اس طرح وہ اگلے الیکشن میں اپنا کوئی چانس دیکھیں گے کیوں کہ انہیں تحریک انصاف کی تباہی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید نے انھیں یقین دہانی کرانا ضروی سمجھا کہ اسٹیبلشمنٹ اب بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے گرنے سے بچائے گی۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ دوسری جانب اپوزیشن اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بالآخر سیاسی کھیل سے دستبردار ہوچکی ہے اور وہ اب ایک انتہائی غیر مقبول حکومت کو مذید سہارا نہیں دے گی جس کی حمایت سے اس کا دامن داغدار ہوا یے۔ نتیجتاً، پارلیمنٹ سے استعفوں یا احتجاجی ریلیوں کی باتوں نے عدم اعتماد کے ووٹ بارے عمل تیز کر دیا ہے۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد 182 ہے جبکہ اپوزیشن کی تعداد 162 ہے۔ 20 ووٹوں کا فرق حکومت کے اتحادیوں پر مشتمل ہے۔ اگر ان میں سے آدھے سے زیادہ ٹوٹ جائیں تو عمران حکومت گر جائے گی۔ اپوزیشن اگر اگلے انتخابات میں انہیں یقینی کامیابی کے لیے اپنی نشستیں پیش کر دے تو وہ دوڑ کر آئیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے؟
کیا کپتان کے بعد نیا حکمران ملک کو بحران سے نکال پائے گا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ گجرات کے چودھریوں کے پاس قومی اسمبلی کی پانچ سیٹیں ہیں۔ اس وقت پنجاب کی سپیکر شپ اور دو وفاقی وزارتیں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ لہٰذا وہ تحریک انصاف کو چھوڑنے پر پنجاب میں اس سے کہیں زیادہ کا مطالبہ کریں گے۔
لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو اسلام آباد تک پہنچنے کے لیے پنجاب میں کلین سویپ کرنے کی ضرورت ہوگی اور آخری چیز جو شراکت داروں کو دینا چاہے گی وہ بہت زیادہ نشستیں یا اقتدار میں حصہ ہوگا۔ پھر ایم کیو ایم کے دو اراکین اسمبلی ہیں۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اس کے بہت سے مسائل ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن ”عمران خان ہٹاؤ آپریشن“ میں اپنے اہم شراکت کار کے خلاف اُن کی مدد نہیں کر سکتی۔ یہی صورت حال خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہے۔ اس وقت افق پر واحد جنگجو جہانگیر ترین ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ساتھ 20 اراکین قومی اسمبلی ہیں۔ لیکن وہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کا ساتھ دیں گے۔
تاہم وہ بھی ایم کیو ایم اور چوہدریوں کی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے یا غیر جانبدار ہے یعنی کپتان کے اتحادی اپنے مستقبل بارے آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں؟
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر مکمل طور پر جانبدار ہیں جنہوں نے ماضی میں ووٹوں کی گنتی میں بھی ہاتھ دکھانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ چونکہ ان کے فیصلوں کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو آسانی سے نہیں جیتنے دیں گے۔
اس لیے جیت کا مارجن اتنا ذیادہ ہونا چاہیے کہ اس میں گڑبڑ نہ کی جا سکے۔ مزید یہ کہ عمران کی مایوسی کوہلکا نہیں لینا چاہیے۔ وہ پنجاب اور سندھ سے اپوزیشن کے اراکین قومی اسمبلی کو حراست میں لینے یا اغوا کرانے کے لیے ایف آئی اے اور نیب کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اس دوران کچھ اور اہم معاملات ہیں جن کو طے کرنا ہے یہاں تک کہ مطلوبہ تعداد پوری ہوجائے اور تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے۔ بقول نجم سیٹھی، ایسے میں کئی سوالات اتح رہے ہیں۔ مثلا یہ کہ اپوزیشن کی عبوری حکومت مختصر ہوگی یا طویل؟ نئے انتخابات کا حکم کب دیا جائے گا؟ وزیراعظم اور صدر کون ہوگا؟ عبوری حکومت کے بعد نگران حکومت کیسی ہوگی؟ اگر صوبائی حکومتیں اسلام آباد میں تحلیل کے منصوبے پر قائم نہ رہیں تو ان کا کیا بنے گا؟ کیا ہم بیک وقت صوبائی انتخابات کے بغیر عام انتخابات کرا سکتے ہیں؟
نجم کہتے ہیں کہ شیخ رشید کا بیان کردہ مارچ کے آخر کا منظر نامہ ایک اور وجہ سے بھی خطرناک ہے۔ شبہاز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات محض رسمی دعا سلام تک محدود نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کے وفد نے بھی شہباز شریف کے ساتھ لنچ کیا۔ گجرست کے چوہدریوں نے بھی زرداری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملائے ہیں۔
اب شہباز شریف کو جہانگیر ترین اور چوہدریوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا ہیں۔ اس دوران عمران خان نے بھی عوامی محاذ سے ان پر تنقید کی توپوں کے دہانے وا کیے ہوئے ہیں۔ تناؤ واضح طور پر محسوس ہورہا ہے۔ یہ ہر کھلاڑی کے چہرے پر ہویدا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔ کسی بھی کتاب میں ”اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری“ کا باب نوجود نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال میں جب کہ آخری اننگز کھیلی جارہی ہے، ”ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو“ کا لمحہ آنے والا ہے۔ لیکن پہلا وار کون کرے گا؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔