پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے 4 بدترین پاسپورٹس میں شامل


وزیراعظم عمران خان کے دور اقتدار میں پاکستان کے لئے ایک اور بری خبر یہ آئی ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے 4 بدترین پاسپورٹس میں شامل کر دیا گیا ہے۔

ہینلی پاسپورٹ انڈیکس کی تازہ ترین رینکگ کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے چار بدترین پاسپورٹس میں سے ایک قرار دیا گیا ہے جس کا نمبر دنیا کے 116 ملکوں میں 113 واں ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان سے نیچے صرف تین جنگ زدہ ممالک یعنی شام، عراق اور افغانستان کے پاسپورٹس ہیں۔ لیکن اسکے باوجود پاکستانی شہری دنیا کے 31 ملکوں کا سفر بغیر ویزا کر سکتے ہیں۔ آج بھی اکثر پاکستانی نہیں جانتے کہ وہ ویزے کے بغیر بھی کک آئی لینڈ، ڈومینیکا، ہیٹی، گیمبیا، مائیکرونیشیا، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو، مونٹ سیراٹ، نیو، سینٹ ونسن اور وانواتو کا سفر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمبوڈیا، کینیا، مالدیپ، مڈغاسکر، سیشلز، موریطانیہ، صومالیہ، نیپال، سری لنکا، سینیگال اور یوگینڈا سمیت 22 ملکوں میں پہنچنے کے بعد وہ ہوائی اڈے پر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ ہینلی پاسپورٹ انڈیکس ایک ادارہ ہے جو دنیا بھر کے پاسپورٹس کی رینکنگ کرتا ہے جس کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ اس پاسپورٹ کے حامل دنیا کے کتنے ملکوں میں بغیر ویزا کے جا سکتے ہیں یا انہیں آمد کے بعد ہوائی اڈے پر ہی ویزا جاری کر دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کا کا ٹیکسوں کا نظام، بین الاقوامی ساکھ، دوہری شہریت اور وہاں کی شہری آزادی کی کیا صورتحال ہے۔ سال 2021 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے جاری ہونے والی اس ادارے کی فہرست کے مطابق جاپان اور سنگاپور کے پاسپورٹ مشترکہ طور پر دنیا میں طاقتور ترین ہیں اور ان کے مالک 192 ملکوں کا سفر پہلے سے ویزا لیے بغیر کر سکتے ہیں۔ بہترین پاسپورٹس کی رینکنگ میں دوسرا نمبر مشترکہ طور پر جرمنی اور جنوبی کوریا کو ملا ہے جن کے پاسپورٹ 190 ملکوں کے لیے کارگر ہیں، جب کہ فن لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ اور سپین والے 189 ملکوں میں آسانی سے جا سکتے ہیں۔

فہرست میں افغانستان سب سے نیچے ہے، جس کے شہری صرف 26 ملکوں میں بغیر ویزا کے جھنجھٹ کے سفر کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان سے نیچے صرف شام، عراق اور افغانستان ہیں۔ یہ تینوں ملک حالیہ برسوں میں خانہ جنگی میں مبتلا رہے ہیں، ان کا کسی طور موازنہ پاکستان سے نہیں بنتا۔لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ حیرت انگیز طور پر یمن، فلسطینی علاقے، صومالیہ اور لیبیا تک پاکستان سے اوپر ہیں، جو سیاسی لحاظ سے پاکستان سے کہیں زیادہ انتشار کا شکار رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی اس فہرست میں اتنے نیچے درجے پر پوزیشن پاکستانی وزارتِ خارجہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1970 کے بعد امریکہ نے پاکستانیوں کی امریکہ آمد پر ویزا دینے کی پالیسی ختم کردی تھی۔ اسکے علاوہ پاکستانی شہری بیشتر یورپی ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے تھے مگر 1983ء میں افغان جنگ کے بعد برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک نے یہ سہولت واپس لے لی جبکہ ان ممالک کی تقلید میں دوسرے ممالک نے بھی یکے بعد دیگرے پاکستانی شہریوں پر ویزے کی پابندی عائد کردی جس میں روز بروز سختی آتی جارہی ہے اور اب یہ سہولت محدود ہوکر صرف دنیا کے پسماندہ ترین 31 ممالک جن میں اکثریت افریقی ممالک کی ہے، تک رہ گئی ہے۔پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان سوویت، افغان جنگ کے دوران پہنچا جب پاکستان میں پناہ لینے والے لاکھوں افغان پناہ گزینوں نے رشوت کے عوض پاکستانی پاسپورٹس اور شناختی کارڈز حاصل کئے۔

اسی طرح پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں جن میں بنگلہ دیشی اور برمی باشندے بھی شامل ہیں، نے یہی طرز عمل اختیار کیا جنہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے جب پکڑا گیا تو وہ پاکستانی تصور کئے گئے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستانی پاسپورٹ کی بدنامی بھی ہوئی جبکہ رہی سہی کسر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں نے نکال دی جن کے بیرون ملک پکڑے جانے پر پاکستانی پاسپورٹ کی مزید تضحیک ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی بیورو کریسی نے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کئی ممالک جن میں مراکش، ترکی، فلپائن اور سری لنکا وغیرہ شامل ہیں، کی حکومتوں سے ایسے معاہدے کررکھے ہیں جن کی رو سے اعلیٰ سرکاری حکام کو جاری کئے گئے آفیشل بلیو پاسپورٹ اور سفارتکاروں کو جاری کئے گئے ڈپلومیٹک ریڈ پاسپورٹ ان ممالک کے ویزوں کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں اور وہ ایسے 32 ترقی یافتہ ممالک کا سفر بھی بغیر ویزا کرسکتے ہیں جہاں گرین پاسپورٹ پر اجازت نہیں۔

Related Articles

Back to top button