کیا پاکستان 22 کروڑ پاگلوں کا ملک ہے؟ 

سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان 22 کروڑ پاگلوں کا ملک ہے جن کے پاگل پن میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اور کوئی انھیں روکنے‘ سمجھانے اور راہ راست پر لانے والا نہیں‘ ملک میں عقل اور عقل کی بات دونوں فوت ہو چکی ہیں‘ آپ کسی سے بات کر کے دیکھ لیں وہ آپ کا منہ توڑ دے گا ۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہم نے اس ملک کو موت کا کنواں بنا دیا ہے اور اس کنوئیں میں کس وقت کس کے ساتھ کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا‘ آپ صدر سے لے کر آئی جی تک کسی سے پوچھ لیں ‘کسی شخص کو اپنی عزت‘ جان‘ مال اور نوکری کے تحفظ کا یقین نہیں ہو گا‘اس ملک میں کسی بھی وقت‘ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بعد اس کے بچوں کو رونے کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں تم سے کیا بات کی جائے تم ہر بات کی تائید کر دیتے ہو یا پھر فوراً معافی مانگ لیتے ہو‘ میں ہنس کران سے بھی معافی مانگ لیتا ہوں۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ چند دن قبل سڑک پر ایک نوجوان نے میری گاڑی تباہ کر دی‘ گاڑی میں میرا خاندان تھا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا بچے محفوظ رہے لیکن گاڑی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔میں نے گاڑی مارنے والے سے بھی جا کر معافی مانگی اور کہا ‘آپ ہمیں معاف کر دیں‘ ہم آپ کے ہوتے ہوئے سڑک پر آ گئے اور پھر آپ کی کوشش کے باوجود فوت ہونے سے بھی بچ گئے‘ میں نے اسے یقین دلایا ہم آیندہ سڑک پر نہیں آئیں گے‘ میرے ایک دوست نے کہا‘ تمہاری گاڑی تباہ ہو گئی اور تم نے الٹا اس سے معافی مانگ لی۔میں نے اس سے کہا سیدھی بات ہے تم نے اگر اس ملک میں رہنا ہے تو پھر اس کی عادت ڈال لو اور یہ بھی یاد رکھ لو اگر مکان اور گاڑی کے مالک ہو تو پھر اس پر حملہ اب دوسرے لوگوں کا حق ہے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ننکانہ صاحب میں 12 فروری کو ہجوم نے ایک  پاگل شخص کو سڑک پر مار دیا،یہ واقعہ سیالکوٹ سے ملتا جلتا ہے‘ ہجوم نے جس طرح 3 دسمبر 2021 کو سری لنکا کے منیجر کو سڑک پر گھسیٹ کر آگ لگا دی تھی بالکل اسی طرح واربرٹن ننکانہ  میں بھی 12 فروری کو گستاخ وارث کو بربریت کا نشانہ بنا دیا گیا۔یہ واقعہ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے‘ آپ اگر وڈیوز دیکھیں تو آپ کو ہجوم میں نوجوان لڑکوں کی تعداد زیادہ نظر آئے گی‘ ان نوجوانوں نے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور کندھوں پر بیگز لٹکا رکھے ہیں‘ گویا یہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور یہ پڑھے لکھے لوگ کیا کر رہے ہیں؟ یہ ایک پاگل سے گستاخی کا بدلہ ٹھڈوں‘ مکوں‘ پتھروں‘ ڈنڈوں اور گالیوں سے لے رہے ہیں۔میں اپنے علماء کرام سے اکثر یہ سوال پوچھتا ہوں کیا دنیا کا کوئی شخص اللہ‘ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی توہین کر سکتا ہے؟ یہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں‘ میرا خیال ہے خدا‘ رسول اور آسمانی کتابیں گستاخی اور توہین سے بالاتر ہیں۔

 

دنیا کا کوئی شخص ان کی توہین نہیں کر سکتا‘ دوسرا دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص بھی یہ جسارت نہیں کر سکتا‘ صرف پاگل اور فاتر العقل لوگ یہ حرکت کرتے ہیں اور تینوں آسمانی مذاہب میں پاگلوں پر حد نافذ نہیں ہوتی‘تیسرا یہ حق ہجوم کو کس نے دیا یہ کسی کی جان لینے کا فیصلہ کرلے‘ یہ تین بنیادی سوال ہیں لیکن یہ سوال درد دل رکھنے والے سماج یا پھر انسانوں کے معاشرے کے لیے ہیں جب کہ ہم ثابت کر رہے ہیں ہم سماج اور انسان دونوں کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ میں دس برسوں سے کوئی مذہبی کتاب لے کر گھر سے نہیں نکلتا‘ خریدتا بھی نہیں ہوں کہ کہیں دیکھنے والے اسے بھی گستاخی نہ سمجھ لیں‘ میں عوامی مقامات پر تلاوت سننے سے بھی ڈرتا ہوں اور قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر بھی چھپا کر پڑھتا ہوں کہ کہیں اسے بھی کوئی گستاخی نہ سمجھ لے اور لوگ اگر مجھ سے مذہبی کتابوں کے بارے میں پوچھیں تو میں فوراً معذرت کر لیتا ہوں‘ میرے بے شمار دوست بھی اب گھروں میں نماز پڑھتے ہیں۔ان کو یہ خوف ہے انھیں مسجد کی بنیاد پر کسی فرقے کے ساتھ نتھی نہ کر دیا جائے اور یوں ان کی جان نہ چلی جائے۔

 

یہ ہے آج کاپاکستان جس میں کسی بھی شخص کو فیکٹری‘ تھانے‘ گھر اور یونیورسٹی سے نکال کر سڑک پر قتل کیا جا سکتا ہے اور ریاست خاموشی سے تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے لیکن نہیں رکیے ‘ ریاست اب ہے کہاں؟ ریاست کو ریاست رہنے کس نے دیا ہے؟ ہم اب بٹے ہوئے تقسیم شدہ جذباتی ہجوم ہیں۔ہم اب جس طرف چل پڑتے ہیں ہم چل پڑتے ہیں اور ریاست کے کسی ادارے میں ہمیں روکنے کی جرات نہیں ہوتی‘ آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا آج اس ملک میں کسی چیز کی سکیورٹی موجود ہے‘ کیا ہمیں یقین ہے ہمیں اگلے مہینے بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ انٹرنیٹ یا بینک کی سہولت مل سکے گی یا یہ حکومت اگلے مہینے بھی قائم رہے گی اور اگر کوئی شخص کسی شخص کی عزت‘ جان اور مال پر ہاتھ ڈالے گا تو کوئی ادارہ آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روک لے گا؟ آپ یقین کریں میری عمر کے لوگ اب تھک چکے ہیں۔ہماری مایوسی تک اب یہ سرکس دیکھ دیکھ کر بوڑھی ہو چکی ہے‘ خدا کی پناہ جس ملک میں نوجوان بھی کندھوں پر کالج بیگ لٹکا کر اور ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اٹھا کر سڑک پر کسی شخص کو سرعام قتل کر دیں۔ اس میں باقی کیا بچ جاتا ہے؟

آخر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ یہ معاشرہ یقین کریں اندر اور باہر دونوں جگہوں سے مر چکا ہے‘ خدا کے لیے اب اسے دفنا دیں یا پھر اسے جگا دیں ورنہ یہ یاد رکھیں آج لوگوں نے ملزم کو تھانے سے نکال کر مار دیا ہے کل یہ پارلیمنٹ ہاؤس سے لوگوں کو نکال نکال کر ماریں گے‘ کیا ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں؟

جنرل فیض کا پٹواری بھائی مس کنڈکٹ پر فارغ

Related Articles

Back to top button