جسٹس فائز نے بندیال کا پلان کیسے ناکام بنایا؟

جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں کہیں ‘ون میں شو’ لکھا گیا تو کہیں ‘گاؤن کے پیچھے چھپا ہوا سیاست دان’ قرار دیا گیا، کہیں ‘ہم خیال ججز کا سرغنہ’ تو کہیں ‘متنازع ترین چیف جسٹس’ کے لقب سے نواز گیا اور کہیں ان کی سپریم کورٹ کی سربراہی کو ‘انصاف کے نام پر منافقت کا دور’ قرار دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر چلنےوالے نازیبا الفاظ میں ٹرینڈز تو یہاں بیان کرنے کے بھی قابل نہیں۔ جسٹس بندیال کے فیصلے اور ان کے تشکیل کردہ بنچز کی کارروائی ان کے اپنے ہی خلاف گواہیاں دیتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ شکر ہے کہ یہ انصاف کی اندھیر نگری کا خود ساختہ چراغ گل ہوا جس کو ثاقب نثار نے جلایا جو ایک سیاسی انجینیئرنگ کا پلان تھا۔
نیا دور کیلئے ڈاکٹر ابرار ماجد کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی آزادانہ رائے انتظامی اختیارات کے بندوبست کے زیر عتاب رہی، منتخب نمائندوں کو نا اہل کیا گیا، آئین کی متضاد تشریحات ہوئیں جنہیں ری رائٹینگ آف کانسٹیٹیوشن کہا گیا، نتیجتاً ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کی اخیر ہوئی، عدالتوں بارے عوام میں عدم اعتماد پیدا ہوا، عدالتی ساکھ کی تباہی سے فیصلوں کی سرعام تضحیک کی گئی، قانون کی حکمرانی کا مذاق بنا، معیشت کی تباہی ہوئی، جمہوریت کو شرمساری ہوئی اور انسانی حقوق کے نام پر سیاسی مقاصد کی تکمیل کی ایک ناکام کوشش نے ‘ہم خیال ججز کے فیصلوں کی صورت’ میں نظریہ ضرورت کی ایک نئی انصافی جہت سے متعارف کروایا۔ تو اس منظرنامے کی روشنی میں اسے انصاف کے سورج کو منہ بسورتا خود ساختہ گل ہوتا ہوا چراغ ہی کہا جا سکتا ہے۔
تاہم عدل کی نئی صبح جسٹس فائز عیسیٰ سے منسوب کی جا سکتی ہے جس کے گواہ ان کے فیصلے اور بحیثیت ایک جج کے ان کا عدالتی کنڈکٹ ہے اور اس کی گواہی ان کے انتہائی مخالف بھی ان کو ایک راست گو کہہ کر دے رہے ہیں۔ جہاں عدل کا معیار ہوتا ہے وہاں دشمن بھی گواہی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس نئی صبح کا آغاز کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی سماعت کو مقرر کر کے کر دیا گیا ہے جس بارے نئے چیف جسٹس، وکلا برادری اور سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کو بہت سارے تحفظات تھے جن کا اظہار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے سابق چیف جسٹس کے ساتھ بنچ میں بیٹھ کر بھی کر چکے ہیں اور انہوں نے بنچ کو احتجاجاً چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان بنچز کی تشکیل کو جائز نہیں سمجھتے اور نا ہی وہ اس نئے قانون کے نفاذ کے بعد سے کسی بنچ میں بیٹھے ہیں۔ تو اس لئے ضروری تھا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ ہوتا۔ لہٰذا اس کے لئے انھوں نے آتے ہی فل کورٹ تشکیل دے دیا اور اس پر فیصلہ ہونے کے بعد باقاعدہ نئے انصاف کے دور کا آغاز اور بنچز کی تشکیل کا ایک آزادانہ اور شفاف طریقہ کار وضع ہو گا جس سے بہتری دیکھنے کو ملے گی۔
اس کے علاوہ کئی ایسے سوالات بھی ہیں جن کا سپریم کورٹ سے عملاً جواب متوقع ہے جن میں ججز کے اثاثوں بارے معلومات ہیں جن کی نئے چیف جسٹس پہلے ہی رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کے ویب سائیٹ پر اشاعت کر چکے ہیں اور پھر سپریم کورٹ کے اندر ملازمین کی بھرتیوں بارے معلومات کے حصول کی درخواستیں دی گئیں جن پر سپریم کورٹ کی طرف سے ان معلومات کو چھپانے کے لئے ایک لمبی جنگ لڑی گئی جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر بھی حاصل کیا گیا تھا۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اب ان معلومات کو دینے کا آغاز کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کرے گی تا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کی ایک مثال قائم کی جا سکے تا کہ باقی اداروں کو بھی یہ ادراک ہو کہ عوام کو اداروں اور ان میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین بارے معلومات کا حصول ان کا بنیادی آئینی و قانونی حق ہے جس سے احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے اور حکومتی امور میں شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔موجودہ ججز کے خلاف جو درخواستیں جوڈیشل کمیشن میں پڑی ہیں ان پر فوری کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئیے تا کہ ان ججز کے دوسروں کے بارے میں فیصلوں میں بیٹھنے سے پہلے ان کے اپنے خلاف الزامات کا فیصلہ ہو جائے تا کہ انصاف کی بنیادی شفافیت اور غیر جانبداری کی شرط تو پہلے پوری ہو۔
نظام انصاف کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ججز کی تعیناتیوں کے عمل کو بھی شفاف بنایا جا سکے اور سنیارٹی کے اصولوں کو اپلائی کیا جائے۔ جو ججز ان اصولوں کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ چکے ہیں ان کے بارے میں بھی کوئی ایسا فیصلہ ہونا چاہئیے تا کہ انصاف کی نئی صبح کی نوید کے حقیقی ہونے پر یقین کیا جا سکے۔ ججز کی تعیناتی اور ان کے خلاف درخواستوں کی کارروائی بھی جیسا کہ جسٹس فائز عیسیٰ اظہار کرتے رہے ہیں، کیمرے کے سامنے ہونی چاہئیے تا کہ عوام اس کو دیکھ سکے اور اس پر کسی قانونی قدغن کے نہ ہونے کا بھی وہ اظہار کر چکے ہیں جس کو اب عملی شکل دینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ عدلیہ کو اب اپنے حصے کی غلطیاں
رحیم یار خان سے گیس کے نئے ذخائر دریافت
تسلیم کر کے ان کا ازالہ کرنا ہو گا۔