بندیال کی نحواست کا خاتمہ جسٹس فائز عیسیٰ کیلئے چیلنج کیوں؟

سپریم کورٹ کے 29ویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ کے ججز میں اختلافات کے تاثرکو ختم کرنا ،ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا اور 55 ہزار سے زائد زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے جیسے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔بعض لوگوں کے لیے متنازع اور بعض لوگوں کے پسندیدہ جسٹس فائز عیسیٰ پروٹوکول کے سخت خلاف ہیںبطور جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہت سے اہم فیصلے دیے میں جن میں عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے کے لیے محترم کا لفظ استعمال نہ کرنے کی آبزرویشن شامل ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پبلک پارکوں کےاستعمال، ماحولیات، خواتین کے وراثتی حقوق اوراکیسویں آئینی ترمیم کیس میں سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو بھی غیر آئینی قرار دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے، وہ اکتوبر 2024 تک چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے، اس دوران ان کو بہت سے اہم چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ چیف جسٹس کے اپنے اختیارات، ملک میں عام آدمی کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، عام انتخابات کے وقت پر انعقاد میں سپریم کورٹ کا کردار اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو کم کرنا نوتعینات چیف جسٹس کے لیے اہم چیلنجز ثابت ہو سکتے ہیں۔
وی نیوز نے مختلف قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے استفسار کیا کہ نئے آنے والے چیف جسٹس کو کون سے چیلنجز کا سامنا ہو گا؟۔ کیا چیف جسٹس ملک میں عام انتخابات کے وقت پر انعقاد میں کوئی کردار ادا کریں گے؟۔
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان و ممتاز قانون دان عرفان قادر کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ جس طرح سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سیاسی معاملات سپریم کورٹ میں زیر بحث لے آئے تھے، اور یہ تاثر دیا گیا کہ ایک سیاسی جماعت کو سپریم کورٹ سے ریلیف دیا جاتا ہے اس تاثر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ختم کرنا ہو گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کسی بھی سیاسی کیس سے خود کو اور سپریم کورٹ کو دور رکھنا ہوگا۔
عرفان قادر کے مطابق آئندہ عام انتخابات کے وقت پر انعقاد سے متعلق کیس اگر سپریم کورٹ میں آیا تو چیف جسٹس فل کورٹ بنا دیں گے اور یہ کہہ دیں گے کہ انتخابات کی تاریخ دینا سپریم کورٹ کا نہیں الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اپنی مرضی کا بینچ تشکیل دے کر معطل کر دیا تھا، جبکہ یہ معطلی نہیں ہو سکتی، یہ سپریم کورٹ کا اختیار نہیں ہے، یہ بالکل غلط تھا، اسی لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے ہی دن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فل کورٹ بنا دیا۔ آج ہی یہ معطلی ختم ہو جائے گی اور پھر یہ قانون نافذ ہو گا۔ اس عرصے کے دوران جو بھی بینچ بنے تھے وہ غیر قانونی ہو جائیں گے اور ان کے فیصلے ختم ہو جائیں گے۔ نیب ترامیم کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا تھا وہ بھی فیصلہ بھی واپس ہو جائے گا۔ عرفان قادر کے بقول چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ایک اور چیلنج ججز کی تعیناتی میں ون میں شو کو ختم کرنا ہوگا، سابق چیف جسٹس چونکہ اپنا دھڑا بنا رہے تھے تو انہوں نے اپنی مرضی کے جونئیر ججز کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا جس سے سینیئر ججز ناخوش تھے، ججز کی تعیناتی کو من و عن قانون کے مطابق کرنا ہو گا۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا کے مطابق چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ ججوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کیسے ختم کرتے ہیں، سپریم کورٹ کی تاریخ میں کبھی ججوں کے درمیان ایسی خلیج سامنے نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فل کورٹ میٹنگ نہیں ہو سکی، ججز کے اختلافی نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیج کافی گہری ہے۔حسن رضا پاشا کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہو گا، اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے بھی چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہر ہدایت اور تجویز کو مانا جائے گا۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے جج ہیں، جو بھی آئین میں درج ہو گا چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ بھی وہی ہو گا، اگر آئین کے آرٹیکل 224 میں عام انتخابات کے 90 دن میں انعقاد کا لکھا ہوا ہے تو وہ 90 دن کے اندر ہی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ دیں گے، لیکن سب بات فیصلوں پر عملدرآمد کی ہے، جب تک سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان خلیج ختم نہیں ہو جاتی تب تک فیصلوں کے عملدرآمد میں کمزوری ہو گی، آج بھی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر سب یہی اعتراض کر رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے ہی ججز میں یکجہتی نہیں تھی۔
چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو درپیش چیلنجز سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی پریشر نہیں لیتے، اسٹیبلشمنٹ اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اپنے مرضی کے فیصلے کرانا بہت مشکل ہو گا۔انصار عباسی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے سب سے اہم چیلنج یہ ہو گا کہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بحال کر سکیں، اس وقت لوگوں کا عدلیہ پر کوئی اعتماد نہیں ہے، کوئی بھی شخص عدلیہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے، ہر عام شخص حق پر ہونے کے باوجود عدالتوں کا رخ کرنے سے کتراتا ہے، عدالتی انصاف فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 130واں نمبر ہے، چیف جسٹس کے لیے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ اس نمبر کو بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔
انصار عباسی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے یہ سمجھتے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی تمام پاور چیف جسٹس کے پاس نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس کا یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ کیس کب فکس ہوگا، کون سا بینچ سماعت کرے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ماضی دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیف جسٹس کے اپنے اختیارات کو منتقل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگائیں گے، سپریم کورٹ کے دیگر معاملات کو بھی قاضی فائز عیسیٰ سنبھال لیں گے۔
انصار عباسی نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور خصوصاً نواز شریف کو سپریم کورٹ سے سخت سزائیں ہوئیں اور ماضی کے چیف جسٹس نے پانامہ کیس اور پھر تاحیات نااہلی جیسے سخت فیصلے دیے، اب نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو امید ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کریں گے اور مستقبل میں پیش آنے والی رکاوٹیں دور کریں گے۔انصار عباسی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید ہے کہ وہ صداقت عباسی اور عمران ریاض جیسے لوگوں کو بازیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے، پی ٹی آئی کو 9 مئی کے واقعے کے بعد ملٹری کورٹس میں
سولر سسٹم لگانے سے بجلی کے بل میں کتنی کمی آسکتی ہے؟
سویلین کے ٹرائل پر نرمی سے متعلق فیصلے کی امید بھی ہو گی۔