جسٹس منیر نے عدلیہ کا منہ کیسے کالا کیا؟

پاکستانی سیاست کے ساتھ عدلیہ کی حالیہ چھیڑ خانی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نت نئے قانونی نکتوں نے قوم کو ایک بار پھر جسٹس محمد منیر کی یاد دلا دی ہے۔۔جن کے ایک فیصلے نے ملک کی عدالتی تاریخ کو گہنا دیا اور جس کے اثرات آج بھی ملکی سیاست پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
پنجاب چیف کورٹ یعنی موجودہ ہائی کورٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے جسٹس منیر کچھ ہی عرصہ بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان یعنی موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے، تاہم اپنے فیصلوں میں ”نظریہ ضرورت“ کی رونمائی کروانا ان کا بنیادی تعارف ہے۔
نظریہ ضرورت آخر ہے کیا؟ اور کیا یہ عدالتوں کو ماورائے آئین اختیارات سے نوازنے کا حربہ ہے؟ بات صرف اتنی ہے کہ عدالت کے سامنے اگر کوئی ایسا کیس آ جائے جس میں آئین اور قانون سے مفاد عامہ کا ٹکراؤ ہو رہا ہو تو عدالتیں بعض اوقات فیصلہ سناتے وقت مفاد عامہ کو رائج قانون پر ترجیح دے دیتی ہیں اور ایسا عام طور پر انتہائی پچیدہ معاملات کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں، دنیا کے دیگر ممالک کی عدالتیں بھی ایسے فیصلے دیتی رہی ہیں لیکن جسٹس منیر نے جس بے دردی سے نظریہ ضرورت کا استعمال کیا اس نے عدلیہ کی ساکھ کو سوالیہ نشان بنا دیا اور اس سے نہ صرف پاکستان میں غیر آئینی فیصلوں کا راستہ کھل گیا بلکہ جمہوریت بھی زندہ درگور کر دی گئی۔۔اور پھر 1977 میں جنرل ضیاء سے لے کر 2000 میں جنرل مشرف تک، اسی نظریہ ضرورت کے تحت ملک میں مارشل لاء دندناتے پِھرے۔
آپ کو پاکستان کی عدالتی تاریخ کے کئی اوراق سیاست اور جمہوریت کو مسخ کرنے والے آمرانہ فیصلوں سے سیاہ نظر آئیں گے۔ مثلاً مولوی تمیزالدین کا کیس، جب ان کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بنچ نے نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں قومی اسمبلی کو تحلیل کئے جانے کے فیصلے کو درست قرار دے دیا۔ اس حوالے سے جسٹس اے آر کارنیلئس کا اختلافی نوٹ بھی تاریخ کا حصہ بنا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، جس کے فیصلوں کا اختیار اس کی اسمبلی کے پاس ہے اور اس کے فیصلوں کو کسی کی توثیق کی ضرورت نہیں۔۔اس کے بعد جب جسٹس منیر نے 1958 میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ایوب خانی اقدام کو قانون ضرورت یعنی LAW OF NECESSITY کے تحت قانونی حیثیت دی تو ملکی سیاست تباہی کے ایسے اندھے راستے پر چل نکلی کہ آج تک اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔۔اگرچہ بعد میں اپنی سوانح عمری میں انھوں نے اپنے فیصلے کو ملکی سیاست میں بد بختی کا نقطہء آغاز قرار دیا مگر ان کا یہ اعتراف سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف تھا۔ عدالتی تاریخ کے ایک اور سیاہ باب کے لکھاری اگرچہ جسٹس منیر نہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ جسے عدالتی قتل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، شاید ہی عدلیہ کی ساکھ پر لگے داغ کو کبھی مٹا سکے۔ یہ فیصلہ چار، تین کے تناسب سے بھٹو کی اپیل کی نفی میں آیا تھا۔۔نظریہ ضرورت ہی کے تناظر میں عاصمہ جہانگیر کیس بنام حکومت پنجاب یا نصرت بھٹو کیس کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جس میں اعلیٰ عدالتی بیڑے نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو بھی جائز اور آئینی قرار دیا تھا۔۔بے نظیر بھٹو کیس بھی تاریخ دانوں کو از بر ہو گا جب اسی مہان عدالت کے سات ججز پر مشتمل فل بنچ نے صدر فاروق لغاری کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اقدام کی توثیق کی تھی!!

Related Articles

Back to top button