مولانا کی دھمکی کام کر گئی،تمام گرفتار کارکنان رہا

جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمن کی کارکنان کی عدم رہائی پر ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال کے بعداسلام آباد پارلیمنٹ لاجز سے گرفتار کیے گئے جمعیت علمائے اسلام کے تمام رضاکاروں اور اراکین قومی اسمبلی کو رہا کردیا۔
گرفتار افراد کی رہائی کا اعلان جے یو آئی ایف کے ٹوئٹر ہینڈل پر صبح ساڑھے 6 بجے جاری کردہ ایک بیان میں کیا گیا۔بیان میں پارٹی ترجمان اسلم غوری کا کہنا تھا کہ ’قیادت کی مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا‘۔

بیان میں انہوں نے کہا کہ ’جے یو آئی کے گرفتار ایم این ایز اور رضاکاروں کو رہا کر دیا گیا، تمام کارکنوں کو مبارکباد اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)میں شامل تمام جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین وکارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائے جانے کے بعد سے پیدا ہونے والی کشیدگی جمعرات کو اس وقت بڑھ گئی جب اپوزیشن کے قانون سازوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مدعو کی گئی جمعیت علمائے اسلام کی رضاکار فورس انصار الاسلام کے ارکان کو نکالنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری نے پارلیمنٹ لاجز پر چھاپہ مارا۔پولیس حکام نے بتایا کہ آپریشن کے دوران کم از کم 4 قانون سازوں کو انصار الاسلام کے 2 درجن رضاکاروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

جس کے بعد جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ملک بھر میں اپنے اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان کو سڑکوں پر آنے اور احتجاج کرنے کی ہدایت کردی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ میں ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اعلان جنگ کررہا ہوں، اب پورا ملک اٹھے گا اور ان کی حکومت چلنے نہیں دی جائے گی۔
تاہم رات گئے ایک پیش رفت میں مولانا فضل الرحمٰن نے ملک بھر میں شروع ہوجانے والے احتجاج کو صبح تک روکنے کا اعلان کیا اور خبردار کیا کہ اگر صبح 9 بجے تک رہنماؤں اور کارکنان کو رہا نہیں کیا گیا تو دوبارہ سڑکوں پر آئیں گے۔

جے یو آئی ایف کے سربراہ کے مطابق اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے کیے ان کے اراکین اسمبلی کو لاحق خطرات کے پیش نظر سیکیورٹی کے لیے انصار السلام کے رضاکاروں کو طلب کیا گیا تھا۔ جمعرات کی دوپہرجے یو آئی ایف کے قانون ساز مولانا صلاح الدین ایوبی چند درجن موٹرسائیکل سوار رضاکاروں کے ساتھ لاجز پہنچے، جہاں تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ کی رہائش ہے، کچھ رضاکار رکن اسمبلی کے ساتھ لاجز میں داخل ہوئے جبکہ دیگر مرکزی دروازے کے باہر جمع ہوئے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ نیوز چینلز پر نشر ہونے والی لاجز کے باہر ان کی موجودگی کی تصاویر نے حکام کی توجہ مبذول کرائی جس پر انہوں نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے انہیں احاطے سے ہٹانے کو کہا۔جواب میں ڈی آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز کی نگرانی میں انسداد فسادات یونٹ، پولیس کمانڈوز، انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ اور انسداد دہشت گردی فورس پر مشتمل ایک بڑی فورس جیل وین کے ساتھ پارلیمنٹ لاجز پہنچی۔

پولیس ذرائع کے مطابق تمام رضاکار رکن قومی اسمبلی صلاح الدین ایوبی کے لاج (401-اے) میں چلے گئے اور دروازے کو تالا لگا دیا۔پولیس نے بتایا کہ سینئر پولیس افسران نے انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
اس دوران مختلف سیاسی قائدین اور مختلف اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان کے حامی بھی لاجز پہنچنا شروع ہوگئے۔بعدازاں پولیس نے احاطے کو گھیرے میں لے لیا اور لاجز کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بند کر دیا اور بھاری نفری اس عمارت میں داخل ہوئی جس میں ایم این اے صلاح الدین ایوبی کا فلیٹ تھا اور اس کے اطراف کی راہداریوں میں پوزیشنیں سنبھال لیں۔

پولیس نے ابتدائی طور پر سیاسی رہنماؤں کی آمد کو روکنے کی کوشش کی اور انہیں احاطے میں داخل ہونے سے روکا لیکن آخر کار اسے دستبردار ہونا پڑا اور گیٹ پر لگی رکاوٹیں کھول دیں۔
رات 8 بجے کے قریب پولیس پارٹی نے ایم این اے کے فلیٹ کا دروازہ توڑ دیا، جس کی وجہ سے پولیس، اراکین اسمبلی اور انصار الاسلام کے رضاکاروں کے درمیان تصادم ہوا، افسران نے بتایا کہ اس تصادم کے دوران متعدد ایم این اے اور رضاکار زخمی ہوئے۔پولیس تقریباً دو درجن رضاکاروں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی اور کم از کم چار قانون سازوں (بشمول ایک سینیٹر اور تین ایم این اے) کو گھسیٹ کر پولیس کی گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا۔

پولیس پارٹی کے جانے کے بعد جے یو آئی ف کے مشتعل سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بڑی تعداد میں پارٹی کارکنوں اور کارکنوں کے ساتھ جائے وقوع پر پہنچے اور عدالت میں گرفتاری کے ارادے کا اعلان کیا ساتھ ہی ملک بھر میں اپنے تمام حامیوں کو سڑکوں پر آنے کی کال جاری کی تھی۔محکمہ پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ اسپیشل برانچ سے کہا گیا تھا کہ وہ اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور کارکنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے اور کوئی بھی معلومات مقامی پولیس کے ساتھ شیئر کرے۔

Related Articles

Back to top button