گورنر بلوچستان کا کپتان کو استعفی دینے سے انکار

باخبر حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے استعفی دینے کا مطالبہ رد کردیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان سے استعفی صرف صدر مملکت طلب کرسکتے ہیں، وزیراعظم نہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں کوئٹہ کے دورے کے دوران گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کو لکھے گے ایک خط میں ان سے استعفی مانگا تھا تاکہ وہ تحریک انصاف کے کسی سینیئر رہنما کو اس عہدے پر فائز کر سکیں۔ موجودہ گورنر بلوچستان کو 2019 میں اس عہدے پر فائز کیا گیا تھا اور وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس بھی ہیں۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں گورنر بلوچستان نے استعفی دینے سے انکار کر دیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آئینی طور پر وزیراعظم کسی گورنر سے استعفی طلب نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اختیار آئین میں صرف صدر مملکت کو تفویض کیا گیا ہے۔ گورنر بلوچستان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے خط لکھ کر استعفی مانگنے کے عمل کو سخت ناپسند کیا اور اسے اپنی توہین قرار دیتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان پر مزید دباؤ ڈالا گیا تو وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جائیں گے۔ گورنر کا کہنا ہے کہ اگر صدر خاموشی کے ساتھ ان سے استعفی مانگ لیتے تو وہ ایسا کر بھی دیتے لیکن اب چونکہ وزیراعظم نے چوک میں ان کی عزت کا جنازہ نکالنے کی کوشش کی ہے لہذا وہ استعفی نہیں دیں گے۔
یاد رہے کہ گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے قریبی دوست ہیں اور ان کو گورنر بنانے کے لیے آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی سفارش کی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف بلوچستان کے ایک سینئر رہنما امیر محمد خان جوگیزئی کو گورنر بلوچستان بنانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن نیب کے ذریعے ان کے خلاف پرانے کیسز کھلوا دئیے گئے اور ان کو اس عہدے کے لئے ان فٹ قرار دے دیا گیا۔ بعد ازاں صادق سنجرانی کی سفارش پر فیض حمید نے عمران خان کو امان اللہ یاسین زئی کا نام پیش کیا جنہیں گورنر بلوچستان بنا دیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اب گورنر بلوچستان سے استعفیٰ مانگنے کی بنیادی وجہ تحریک انصاف بلوچستان کی جانب سے بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔ ان کی جماعت کا مطالبہ ہے کہ گورنر یاسین زئی کو ہٹا کر پارٹی کے کسی سینیئر رہنما کو گورنر بلوچستان لگایا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران ان کو صوبائی پارٹی قیادت کی جانب سے گورنر بلوچستان کے لئے تین نام پیش کئے گئے۔ ان میں پہلا نام پی ٹی آئی رہنما اور سابق ڈی آئی جی کوئٹہ نوابزادہ ہمایوں جوگیزی کا تھا، دوسرا نام ڈاکٹر منیر بلوچ کا اور تیسرا ظہور آغا کا تھا۔ تاہم عمران نے نوابزادہ ہمایوں جوگیزی کو اگلا گورنر بلوچستان بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا جسکے بعد موجودہ گورنر یاسین زئی سے استعفی مانگا گیا تھا۔ لیکن یاسین زئی پہاڑی پر چڑھ چکے ہیں اور استعفی دینے سے انکاری ہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اب اگر ان سے صدر نے بھی استعفی مانگا تو وہ ایسا نہیں کریں گے اور معاملہ عدالت میں لے کر جائیں گے کیونکہ اب یہ ان کی عزت کا معاملہ بن چکا ہے۔
گورنر بلوچستان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے استعفی لینے کے لئے جو طریقہ کار کیا وہ سراسر غلط تھا۔ ایک تو انہوں نے گورنر بلوچستان کو خط لکھ مارا اور دوسرا اس خط کو سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ ادھر پی ٹی آئی کے ایک رہنما سے جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ گورنر کی تبدیلی کس کے کہنے پر کی جا رہی ہے تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے دورہ کوئٹہ کے دوران گورنر کو ہٹانےکی بات ہوئی تھی اور پارٹی کی صوبائی قیادت نے عمران خان کو گورنر بارے اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ گورنر کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور پی ٹی آئی نے اس عہدے کے لیے سید ظہور آغا کا نام فائنل کر لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سید ظہور آغا ہمارے امیدوار ہیں جلد ہی وہ گورنر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ یاد رہے کہ ظہور آغا کو وزیراعظم نے سینٹ کے حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا تھا لیکن پھر مخالفت کے بعد واپس لے لیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کا کہنا ہے کہ ظہور آغا کے ساتھ گورنر سپ کا وعدہ تبھی کر لیا گیا تھا جب ان سے سینیٹ کا ٹکٹ واپس لیا گیا تھا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان گورنر بلوچستان سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button