پاکستانی تجزیہ کار لفظ ”اسٹیبلشمنٹ“ کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟

دنیا بھر میں صحافی مخصوص قوتوں یا اداروں کے لئے کچھ مخصوص الفاظ استعمال کرتے ہیں جو رائج العام ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک عام شخص بھی ان کے معنی اور اشارے سمجھنے لگتا ہے۔ پاکستانی صحافی بھی اپنی تحقیقاتی رپورٹس اور خبروں میں پس پردہ ریاستی قوتوں اور پالیسی سازوں کا حوالہ دینے کے لئے لفظ ”اسٹیبلشمنٹ“ کا سہارا لیتے ہیں، جسے عام طور پر لوگ فوج سے تعبیر کرتے ہیں مگر یہ وہ قوتیں ہیں جن کا تعلق محض فوج سے نہیں ہوتا بلکہ یہ سیاست، اندرونی اور بیرونی دفاع، خفیہ ایجنسیوں اور جوہری منصوبوں کی فیصلہ سازی اور پالیسیوں تک پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
پاکستانی اور بھارتی افواج کی نفسیات اور اسٹرٹیجی کے حوالے سے شہرہء آفاق کتاب ”دی آرمی“ کے مصنف سٹیفن کوہن نے اپنی ایک اور کتاب ”آئیڈیا آف پاکستان“ میں اسٹیبلشمنٹ کی بہت عمدہ تشریح کی ہے۔ کوہن لکھتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دراصل ایک درمیانی راستے کا نظریہ رکھتی ہے اور اسے غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس میں قوت اور اہمیت کے حامل سیاسی اور غیر سیاسی افراد شامل ہوتے ہیں، غیر سیاسی افراد میں سے بیشتر کا تعلق فوج، سول سروس اور عدلیہ کی ٹاپ مینجمنٹ سے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک غیر تسلیم شدہ سسٹم ہے لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی ہر حکومت کو اس کا حصہ بننا ہی پڑتا ہے کیونکہ اسی پر ملک کے تحفظ، سلامتی، معیشت اور خارجہ پالیسی کا دارومدار ہوتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے کئی سابق آرمی چیف اور جسٹس صاحبان نے اس سسٹم کا بے دریغ استعمال کیا اور یہ روایت آج بھی باقی ہے۔۔ تو اگر اس وقت ملک میں جو سیاسی بحران اور معاشی افراتفری ہے، اس کی تمامتر ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی تو کیا ماضی کی اُٹھا پٹخی کو دیکھتے ہوئے اس کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالا جا سکتا ہے؟ کیا بلاول بھٹو کا پارلیمان میں اٹھایا گیا سوال کہ اسٹیبلشمنٹ کے کئے کی سزا سیاستدانوں کو ہی نہیں ملک کو بھی بھگتنا پڑ رہی ہے۔۔اس سسٹم کو بے نقاب کرنے کے لئے تھا؟ موجودہ صورتحال میں بلاول بھٹو ہی نہیں ہر باشعور سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال اٹھا رہا ہے کیونکہ کہنے کو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن پارلیمان ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں وضع کرتے وقت کن کن قوتوں یا اداروں کی ڈکٹیشن کی پابند ہوتی ہے، یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر کب اپنے فیصلوں میں آزاد ہو گا،معیشت کب سنبھلے گی، عام آدمی کی حالت کب سدھرے گی، انتخابات نوے دن کے اندر نہیں ہو سکتے تو کب ہوں گے، حکومت کے رویئے میں لچک کیوں نہیں، اپوزیشن کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی کیوں نہیں؟ یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات کسی کے پاس نہیں۔۔بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جب تک ملک کا سیاسی خلفشار پھٹنے کے دہانے پر نہیں پہنچ جاتا، اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر چکی ہے لیکن اس تاخیر سے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کو داؤ پر لگانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ملک کی اسٹیبلشمنٹ یعنی بالا دست حلقے ہی اصل کرتا دھرتا ہیں اور اگر انھیں ملک کے حالیہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام پر تشویش ہے تو وہ حرکت میں کب آئیں گے؟ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس وقت آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب جبکہ عمران خان بہت دور دکھائی دے رہے ہیں!!

Related Articles

Back to top button