تحریک لبیک پر پابندی سے ریاست کا دوغلا چہرہ بے نقاب ہوا

شدت پسند مذہبی تنظیموں کے حوالے سے پاکستانی ریاست کی ہمیشہ سے دوغلی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی معاہدے محض مذاق ہیں، اگر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے میثاق پر عمل درآمد ممکن نہیں تھا تو پھر حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ اس پر دستخط ہی کیوں کئے تھے؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ تحریک لبیک سے حکومتی مذاکرات اور معاہدوں کا جو انجام اب ہوا ہے، کیا اس سے سبق سیکھا جائے گا یا پھر ریاست مستقبل میں بھی دوغلی پالیسیاں اور دوغلے چہرے لے کر ہی چلتی رہے گی؟

اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں سہیل وڑائچ کا کہنا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں، تسلیم کریں یا نہ کریں، سچ یہ ہے کہ ہماری ریاست کے دو چہرے ہیں۔ کبھی ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں اور ان کو ہم پالتے پوستے ہیں، حتیٰ کہ ان کی غلطیوں کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ لیکن جب یہی اپنے لوگ کسی سیاسی یا مذہبی وجہ سے ہمارے خلاف ہو جائیں تو ہم انہیں شرپسند اور تشدد پسند کہہ کر ان کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک بار نہیں ہوا، ماضی قریب میں ہم اس طرح کی کئی مثالیں دیکھ چکے ہیں۔ ایک زمانے میں طالبان کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں، بس کچھ ناسمجھ ہیں لیکن اپنے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ انہیں اپنوں کے خلاف ہماری فوج کو اپنی تاریخ کی سب سے خوفناک جنگ لڑنا پڑی۔
لشکرِ طیبہ اور  جماعت الدعوۃ کی کارروائیوں کو بھی ہم پہلے Own کرتے رہے اور انہیں کشمیریوں پر ظلم کا ردِعمل قرار دیتے رہے، ریاست انہیں مدد بہم پہنچاتی رہی، عوام ان کی حمایت کرتے رہے لیخن پھر ایک دن یہ پتہ چلا کہ لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ دہشت گرد تھیں اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگ گئی ہے۔

سہیل وڑائچ یاد دلاتے ہیں کہ اس سے پہلے سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں پر بھی کئی دفعہ پابندی لگی لیکن یہ کالعدم جماعتیں کسی نہ کسی نئی جماعت اور نئے نام سے پھر سرگرم عمل ہو جاتی رہی ہیں۔ یہی حال کالعدم تحریک لبیک کا ہے۔ ایک وقت میں ریاست ان کے ساتھ تحریری معاہدے کر  رہی تھی، ان کو عزت و احترام دے رہی تھی اور اب یہ وقت آ گیا ہے کہ اسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم اس جماعت سے ریاستی معاہدے کر  رہے تھے، ہم اس وقت ٹھیک تھے یا اب جب ہم اسے کالعدم قرار دے رہے ہیں، تو تب ٹھیک ہیں؟ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا، مگر ہم کہاں کے دانش مند ہیں کہ بار بار وہی غلطی دہراتے ہیں۔ ہم خود ہی ایک بت تراشتے ہیں، اس کے بال و پر ترتیب دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد اسی بت کو توڑنے پر تل جاتے ہیں۔ اس دوغلی اور منافقانہ ریاستی پالیسی نے ریاست پاکستان کو دنیا بھر میں مذاق بنا دیا ہے۔ اصل میں ہمارے اندرونی تضادات ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دوغلی ریاستی پالیسی ہمیں لشکر طیبہ یا جماعت الدعوۃ کے زمانے میں بھی نظر آئی، تب بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے سے جماعت الدعوۃ کا باقاعدہ امیدوار کھڑا کیا گیا اور دلیل یہ تھی کہ جہادی اور سخت گیر تنظیموں کو انتخابی میدان میں لانے سے ان کے موقف میں نرمی آئے گی اور  وہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح نارمل سیاسی جماعتیں بننے کی راہ پر چل پڑیں گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آپ تحریک لبیک کی مثال لے لیں جس نے باقاعدہ 2018 کا الیکشن لڑا، اور 22 لاکھ ووٹ لئے، اب تو وہ مین اسٹریم پارٹی تھی، اسے کالعدم قرار دینے سے وہ دلیل غیرموثر ہو گئی جو جماعت الدعوۃ کو میدان سیاست میں لانے کے لئے دی جاتی تھی۔
دنیا میں ریاستیں دو چہرہ نہیں ہوتیں۔ ان کے قانون، قاعدے اور اصول سب کے لئے برابر اور منصفانہ ہوتے ہیں جبکہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اپنا دوست ہو یا اپنا فائدہ ہو تو ترازو کو اس کے حق میں جھکا دو اور اگر اپنا نقصان ہو رہا ہو یا وہ اپنا سیاسی یا مذہبی حریف ہو تو پھر ترازو اپنی طرف جھکا کر اس کو برباد کر دو۔ یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ ریاستی پالیسی کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر۔ اس وجہ سے قانون اور قاعدے کا احترام بھی باقی نہیں رہتا۔ اذہانت کے اعتبار سے ہم دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ ہمارے لوگ دنیا میں جہاں بھی گئے ہیں انہوں نے اپنی عقل کا بہترین استعمال کر کے باقی دنیا سے بہتر مقابلہ کیا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر اور انجینئر دنیا میں بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری فوج اور ہمارے انٹیلی جنس ادارے بھی دنیا کے ٹاپ موسٹ اداروں میں شمار کئے جاتے ہیں بظاہر ایسی ریاست کو دنیا بھر میں ٹاپ موسٹ ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے اور اس کی وجہ ہمارا دو چہرہ ہونا ہے اور اپنے بارے غلط فیصلے کرنا ہے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ
ہم اصولوں پر نہیں بلکہ مفادات کی بناپر فیصلے کرتے ہیں۔ افراد دو چہرہ ہوں تو لڑتے جھگڑتے پھر بھی زندگی گزار لیتے ہیں مگر ریاست دو عملی کا شکار ہو تو اقوام عالم میں اس کا گزارا مشکل ہو جاتا ہے۔ ریاست کو اپنے قواعد و ضوابط، آئین اور قانون کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں ریاستی معاہدے محض مذاق ہیں، اب کون ریاست سے پوچھے کہ فرانسیسی سفیر کو  20 اپریل تک ملک بدر کرنے کے معاہدے پر اگر عمل ممکن نہیں تھا تو اس پر دستخط ہی کیوں کئے تھے؟ اسی طرح تحریک لبیک سے مذاکرات اور معاہدوں کا جو انجام اب ہوا ہے، کیا اس سے سبق سیکھا جائے گا یا پھر ریاست مستقبل میں بھی دو چہرے ہی دکھاتی رہے گی؟ اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان اندرون ملک بھی اپنی دوغلی پالیسی تبدیل کرے تاکہ دنیا میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات لگتے ہیں ان کا مداوا ہو سکے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ صاف بات ہے اگر واقعی پاکستانی ریاست نے ہتھیار اٹھانے والی ہر جماعت کو کالعدم قرار دینا ہے تو پھر اپنے پرائے سب ہی کالعدم قرار دیے جائیں۔ اگر ریاست اپنی منجی تھلے ڈانگ نہیں پھیرے گی تو معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا جائے گا۔ ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلیں گی، تشدد اور مزاحمت کا دور شروع ہو جائے گا۔ اگر سعد رضوی کو گرفتار ہی کرنا تھا تو پھر کیا متوقع ردِعمل کا مناسب بندوبست کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی؟ پچھلی دفعہ خادم رضوی کو گرفتار کیا گیا تو مناسب کنٹرول کی وجہ سے ردِعمل سامنے نہیں آ سکا تھا، اس دفعہ کمزور وناقص پلاننگ سے انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا اور قانون کا مذاق بھی اڑا۔ کاش ہم اب اپنی غلطیوں سےہی کچھ سیکھ جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button