ڈپٹی سپیکرکیخلاف عدم اعتماد: پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 مئی تک ملتوی

ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے خلاف تحریک انصاف کی تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ ناکامی کے پیش نظر سپیکر پرویز الہی نے اسمبلی اجلاس 16 مئی تک ملتوی کر دیا.

یاد رہے کہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے یک نکاتی ایجنڈے پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج طلب کر رکھا تھا. گزشتہ اجلاس کے پیش نظر توقع کی جا رہی تھی کہ آج کا اجلاس بھی ہنگامہ آرائی کی نظر ہو جائے گا. مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران تعاون کے عوض آج دوست محمد مزاری کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے پولیس نے بڑا ایکشن لیتے ہوئے سیکرٹری کوارڈینیشن پنجاب اسمبلی عنایت اللہ کو حراست میں لے لیا ہے۔ترجمان اسمبلی کا کہنا ہے کہ عنایت اللہ کو گورنر ہاؤس کے سامنے سے پولیس نے حراست میں لیا، عنایت اللہ لک کو تھانہ گڑھی شاہو منتقل کر دیا گیا۔ عنایت اللہ عدالت جا رہے تھے کہ پولیس نے ایکشن کیا، بتایا نہیں گیا کہ عنایت اللہ کو کس مقدمے میں حراست میں لیا گیا۔

پنجاب اسمبلی کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا تھا کہ آج کے اجلاس کا صرف ایک نکاتی ایجنڈا ہے جو کہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف قرارداد ہے، پی ٹی آئی کو تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے لیے 186 اراکین اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن اسمبلی نے بتایاکہ ووٹنگ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگی، اجلاس کی صدارت اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کریں گے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کو ڈپٹی اسپیکر کو ہٹانے کے لیے 186 ووٹ درکار ہوں گے، ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی کے منحرف لوگ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لیں۔

اجلاس کے دوران کسی بھی رکن صوبائی اسمبلی کو ایوان میں اپنا موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں تھی، خواتین اراکین اسمبلی کو اسمبلی میں اپنے ہینڈ بیگز لے جانے سے روک دیا تھا، اس کے علاوہ مہمانوں کو گیلری میں آج کا اجلاس دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتھی،

سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی بشارت راجہ، احمد خان، سبطین خان اور مراد راس نے ڈپٹی اسپیکر کو ہٹانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 7 سی اور آرٹیکل 127 کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے طریقہ کار کے قواعد کے قاعدہ نمبر 12 کے تحت تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی نے آج ہونے والے پنجاب اسمبلی کے سیشن کے لیے حکمت عملی طے کرنے کے لیے مشترکہ اجلاس منعقد کیاتھا۔ خیال رہے کہ حمزہ شہباز نے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے جو 197 ووٹ حاصل کیے ان میں سے 26 ووٹ کا تعلق پی ٹی آئی کے منحرف ترین گروپ، علیم خان گروپ اور اسد کھوکھر گروپ سے تھا۔

مشترکہ اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے بتایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سمیت پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی نے دوست محمد مزاری کے خلاف قرارداد کو ناکام بنانے کے لیے ان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے آخری اجلاس میں غیر معمولی تشدد دیکھنے میں آیا تھا جس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی آسیہ امجد سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔

تاہم ایوان نے قائد حزب اختلاف اور وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب کرلیا تھا جبکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے میگا فون پر ہال میں موجود گیسٹ لابی سے اسمبلی کی کارروائی شروع کی اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ایجنڈا اور قواعد پڑھ کر سنائے تھے۔پولیس اور اینٹی رائٹ فورس نے ایوان کے اندر پوزیشنیں سنبھال لی تھیں جبکہ خواتین اراکین اسمبلی اسپیکر کی ڈائس کے پاس بیٹھ گئیں اور نعرے لگائے۔

عدالتی حکم کے باجود گورنر پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکاری

چوہدری پرویز الٰہی نے دعویٰ کیا تھا کہ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم ہوتے ہی ڈپٹی اسپیکر کو دیئے گئے تمام اختیارات کالعدم ہو گئے۔پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری محمد خان بھٹی نے کہا کہ صرف سارجنٹس کے پاس ہی ایوان میں قدم رکھنے کا اختیار تھا لیکن اس کے باوجود ڈپٹی اسپیکر نے ڈپٹی کمشنر اور آپریشنز ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کو بلایا جنہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری کو ایوان میں طلب کیا۔انہوں نے کہا کہ دوست محمد مزاری نے آفیسرز باکس سے انتخابی عمل کو میگا فون کے ذریعے چلایا جو کہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔

Related Articles

Back to top button