شفاف آئینے کی طرح زندگی گزارنے والے قاضی واجد

ایک دوسرے کا خیال رکھو، مل کر رہو، اس دنیا کو اتنا رنگین چھوڑ کر جاؤ کہ آنے والے کہیں کہ جو لوگ گزر گئے ہیں وہ ہمارے لیے کچھ اچھا چھوڑ کر گئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کے جانے کے بعد آپ کو برا بھلا کہیں اور آپ کو بھلا دیں۔یہ وہ پیغام ہے جو معروف ٹی وی اداکار قاضی واجد نے 11 فروری 2018 کو اپنی وفات سے پہلے پاکستانیوں کے لیے چھوڑا۔
قاضی واجد ایک شفاف آئینے کی طرح زندگی گزارنے والے مہذب آدمی اور خالص فنکار تھے جن کی نرم مزاج اور سادی دل شخصیت کا عکس ان کے کرداروں میں بھی جھلکتا تھا۔ اگرچہ ان کے کرداروں میں ہمیشہ سادگی نمایاں رہتی تھی لیکن ذاتی زندگی میں وہ خوش لباسی کو پسند کرتے تھے۔ وہ سیر و تفریح کے بھی دلدادہ تھے، ان کا پسندیدہ شہر تو لندن تھا لیکن انہیں کراچی میں رہنا پسند تھا کیونکہ وہ یہیں پلے بڑھے تھے۔
قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا، وہ 1943 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں سکونت اختیار کی۔انہوں نے 10 برس کی عمر میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ بچوں کے پروگرام’ نونہال‘ میں صدانگاری کے جوہر دکھائے۔
دوسرا پروگرام ’قاضی جی کا قاعدہ‘ کیا، جس کے بعد اپنے نام کا قاعدہ بدل لیا کیونکہ جب انہوں نے رتن کمار کی بچوں کی فلم ’بیداری‘ کی تو ٹائٹل کے لیے ان کے طویل نام کو مختصر کیا گیا اور اس طرح وہ قاضی واجد کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ قاضی واجد نے ریڈیو پروگرامز کے آغاز سے ہی سب کو اپنا ایسا اسیر کیا کہ اس زمانے میں لوگ ڈاک کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔بچپن کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے دور رہنے والے قاضی واجد کے اندر وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک ذہین اور بھلے انسان میں ہوتی ہیں۔
تیسری شادی پر کپتان کی عامر لیاقت کی حوصلہ افزائی
25 برس تک ریڈیو میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے بعد انہوں نے 1965 میں تھیٹر میں قدم رکھا اور کراچی سے لاہور روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے خواجہ معین الدین کے مشہور ڈرامے’ تعلیم بالغاں‘، ’وادی کشمیر‘، ’مرزا غالب بندر روڈ‘ اور دیگر میں کام کیا ۔قاضی واجد اسٹیج پر ایسے جلوے بکھیرتے تھے کے مکالموں کے درمیان ہی لوگ داد دینا شروع کردیتے تھے۔
قاضی واجد کو 1967 میں ٹی وی سے پیشکش ہوئی اور یہیں سے ان کے کیریئر کو صحیح معنوں میں عروج ملا۔ ان کا ٹی وی کے لیے پہلا ڈرامہ پروڈیوسر عشرت انصاری کا’ ایک ہی راستہ ‘تھا، جس میں انہوں نے منفی کردار نبھایا۔ قاضی واجد نے یوں تو مزاحیہ اور سنجیدہ کردار بھی کیے لیکن انہیں منفی کردار کرنا زیادہ پسند تھا۔
1969 میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’خدا کی بستی‘ نے قاضی واجد کو کامیابی اور شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا اور ‘راجا’ کے کردار نے انہیں ایک نئی پہچان دی۔ اس ڈرامے کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ جب یہ نشر ہوتا تھا تو گلی محلوں میں سناٹا چھا جاتا تھا، یہاں تک کے اگر اس دوران کسی کی شادی رکھی جاتی تو ٹی وی کا انتظام کیا جاتا اور شادی کارڈ پر بالخصوص لکھا جاتا کہ ’ٹی وی کا انتظام کیا گیا ہے۔
اس ڈرامے کے بعد بھی قاضی واجد نے بے شمار شہرہ آفاق کامیاب ڈرامے کیے، جن میں ’تنہائیاں‘، ’ان کہی‘، ’دھوپ کنارے‘، ’حوا کی بیٹی‘ اور ’چاند گرہن‘ وغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ ڈرامے ہیں جن کے معیار کا مقابلہ آج کے ڈرامے بھی نہیں کر سکے۔
وہ مطالعے کے رسیا تھے، اس لیے ان کی گفتگو میں علمیت بھی پنہاں تھی۔ جس موضوع پر بھی اظہار خیال کرتے، وہ نپا تلا اور واضح مؤقف کے ساتھ ہوتا تھا۔ جدید زمانے کی آلائشوں نے کبھی ان کو نہیں جکڑا تھا۔ وہ شوبز کی چکا چوند سے دور، ایک سادہ طرز کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
کراچی کے علاقے، گلشن اقبال کی سڑکوں پر، وہ ایک مطمئن اور عام باشندے کی طرح دیکھے جاتے تھے، جب وہ خریداری کر رہے ہوتے یا کسی دکان سے کچھ خرید رہے ہوتے تو انہی لوگوں میں موجود ہوتے جن کے وہ ستارے تھے۔
قاضی واجد کی فنی خدمات پر حکومت پاکستان نے 14 اگست 1988 کو انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا، لیکن انکے نزدیک سب سے بڑا اعزاز لوگوں کی پسندیدگی تھی۔ 11 فروری 2018 کو قاضی واجد ہم سے بچھڑ گئے، اور یوں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا ایک عہد اختتام پذیر ہوگیا۔ تاہم ان کی بے مثال شخصیت اور جاندار اداکاری کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ وہ ایک شاندار انسان اور ایک بے مثال فنکار تھے، ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، جن کا خلاء کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔