نواز شریف کو نااہل کرنے والے ججوں کا احتساب کیوں ہونا چاہیئے؟


پاکستانی سیاسی تاریخ کے مشہور زمانہ عدالتی کیس کے محرک پانامہ سکینڈل بریک کرنے والے سینئر صحافی عمر چیمہ نے کہا ہے کہ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ سپریم کورٹ نے کس قانون اور کس اصول کے تحت نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا تھا۔ اپنے ساتھی سینئر صحافی اعزاز سید کے ہمراہ ایک پروگرام میں پانامہ کیس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی طریقہ ہے کہ آپ ایک منتخب وزیر اعظم کو وہ تنخواہ چھپانے پر نااہل کر دیتے ہیں جو اس نے وصول ہی نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے جواز یہ بنایا کہ نوازشریف نے اپنے بیٹے حسین نواز سے جو پیسے وصول کرنے تھے ان کو کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت ڈیکلیئر نہیں کیا گیا لہذا اثاثے چھپانے کا الزام ثابت ہو گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں نے کسی سے کوئی پیسے وصول ہی نہیں کیے تو میں انہیں اپنے اثاثوں میں ڈیکلیئر کیسے کروں گا؟ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ اگر کبھی ایسا بے تکا فیصلہ سنانے والے ججوں کا احتساب ہو تو ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے یہ عجیب و غریب فیصلہ کس قانون اور ضابطے کے تحت سنایا تھا۔ ان ججوں کی پوچھ گچھ ہونی چاہیے کیونکہ ججوں کے فیصلوں کا کوئی جواز تو ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں تب ہلچل مچائی، جب بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی مشہور لا فرم ”موزیک فانسیکا” کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔ پانامہ پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس یا آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا تھا جس کے بعد انہیں نہ صرف عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا بلکہ پارٹی صدارت سے بھی فارغ کردیا گیا تھا۔

پاکستان میں پانامہ پیپرز میں دو سو سے زائد افراد کے نام سامنے آئے مگر 6 سال گزرنے کے بعد صرف نواز شریف کے خلاف ہی کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچ پایا۔ باقی جن افراد کے نام آئے تھے ان کے خلاف تحقیقات یا تو شروع ہی نہیں ہوئی یا سرد خانے میں ہیں۔ عمر چیمہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’یہ ایک جائز سوال ہے کہ پانامہ پیپرز سکینڈل پر کارروائی صرف شریف خاندان کے خلاف ہی کیوں ہوئی؟ جب یہ سب ہو رہا تھا تو تب یہ دلیل بالکل جائز تھی کہ نواز شریف وزیر اعظم ہیں تو احتساب ان سے ہی شروع ہونا چاہیے مگر وقت نے ثابت کیا اسکا مقصد ہی وزیراعظم کا احتساب تھا۔ ان کے علاوہ کسی کا احتساب مطلوب نہیں تھا۔ عمر چیمہ نے کہا کہ نواز شریف کے کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔

یاد رہے کہ عمران کی جانب سے دائر کردہ پانامہ پیپرز کیس میں سپریم کورٹ نے مزید تحقیقات کی ذمہ داری ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو سونپی تھی جو کہ عدالتی تاریخ کا پہلا اور آخری فیصلہ تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ یہ بھی ایک منفرد حکم تھا جس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی جسکے بعد نواز شریف کو پانامہ کیس کی بجائے اقامہ کیس میں نااہل قرار دے دیا گیا۔

پانامہ پیپرزسکینڈل پر کام کرنے کے لیے تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم نے مختلف ممالک سے صحافیوں کو اکٹھا کر کے انکے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا، پاکستان سے دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ نے اس پر کام کیا۔ پاناما پیپرز کے 6 سال مکمل ہونے پر عمر چیمہ سے پوچھا گیا کہ جب انہیں یہ خبر ملی کہ سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے تو کیا وہ خوش ہوئے کہ ان کی ایک خبر نے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا ہے؟ اس پر عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’جب پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو میں شروع میں بڑا پرجوش تھا۔ لوگ سوشل میڈیا پر مجھے مبارکبادیں دے رہے تھے اور میں مبارکبادیں سمیٹنے میں مصروف تھا کہ اس دوران سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی آ گئی جس کو پڑھنے کے بعد میرے تاثرات بالکل بدل گئے۔ مجھے عدالتی فیصلہ انتہائی مضحکہ خیز لگا۔‘

عمر چیمہ کے مطابق: ’بطور صحافی ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہماری سٹوری کا اثر ہو لیکن اگر اس کو کچھ لوگ اپنے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں تو اس میں خوشی والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے کم از کم اس بات کی خوشی نہیں تھی کہ جس انداز میں چیزیں آگے بڑھیں، لوگ اور کئی ادارے ایک پیج پر آئے، یہ کوئی طریقہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کیس میں سنایا گیا فیصلہ جائز تھا۔

Related Articles

Back to top button