تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کارروائی کی تفصیلات طلب

عدالت عظمیٰ نے دپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قومی اسمبلی اجلاسوں کی کارروائی کی تفصیلات طلب کر لی ہیں، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر سماعت کررہا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم جلدی فیصلہ چاہتے ہیں‌ لیکن تمام فریقوں کا موقف سنیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سن کر دیں گے، رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنٰی حاصل ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جاسکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کرلیا جو غیرآئینی ہے، سپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی، تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی، آرٹیکل 95 کے تحت ووٹنگ کا عمل ضروری تھا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے جاری کردہ نوٹس کے بعد ووٹنگ ضروری ہے، ووٹنگ آئینی کمانڈ ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی تاخیر سے بلایا گیا تھا اور 25 مارچ کو اجلاس بلا کر محض دعا کے بعد ملتوی کردیا جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا تھا، اجلاس کو کسی بحث کے بغیر 3 اپریل تک ملتوی کیا گیا، 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی تو فواد چوہدری اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر خط اور بیرونی سازش لے آئے جبکہ یہ جزو اجلاس کے ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھا۔رضا ربانی نے کہا کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کردی گئی۔

ڈپٹی سپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا، ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ڈپٹی سپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ، ڈپٹی سپیکر نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیا، ان کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔

رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا اسپیکر عدالتی فائنڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے، وزیراعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی، تین آپشن والی بات کی اسٹیبلشمنٹ نے تردید کی، رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کرے۔

رضا ربانی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق 1 کے تحت عدم اعتماد قرار داد جمع ہوئی جس پر 152 ارکان کے دستخط ہے اور 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی، عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کردی گئی، این اے رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن بحث نہیں کرائی گئی پھر 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔

دریں اثنا جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں کہ کیس جلدی مکمل کریں تا کہ کوئی فیصلہ دیا جا سکے، دلائل جاری رکھتے ہوئے مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد کی قراداد کو دیکھے ،تحریک وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے جمع کرائی گئی تھی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیراعظم اکثریت کھو چکے ہیں، سپیکر کی جانب سے کوئی ہے؟ ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں، اسپیکر کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ کل طے ہے، ہم وآپس آکر دیکھتے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اسپیکر کی رولنگ آئین کے تحت جانچنے کا مکمل اختیار ہے، پیپلز پارٹی کے وکیل شہباز کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جائزہ نہ لیا تو غیر جمہوری قوتوں کو فائدہ ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمان کی ورکنگ کا تعین نہیں کر سکتے، تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں نے تفصیلی دلائل دینے ہیں، کل دلائل دینے کی اجازت دیں۔

پنجاب میں اپوزیشن اراکین کی رکنیت معطل کرنے کی سازش

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ وہیں کھڑا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا، نگران حکومت اس لئے نہیں بن پارہی کیونکہ سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے، رمضان بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں، نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آئینی نکات پر دلائل دوں گا، یہ مقدمہ قومی مفاد سے متعلق ہے، 1993میں نواز شریف اسمبلی تحلیل کیس آیا، سپریم کورٹ نے ایک ماہ تک کیس کو سنا تھا، جسٹس منیب اختر نے رضا ربانی سے استفسار کیا کہ آپ کے تحریری دلائل میں لکھا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست تھی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔عدالت نے سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

Related Articles

Back to top button