عمران پاکستان کا طاقتورترین لیکن ناکام حکمران کیسے بنا؟


سابق وزیراعظم عمران خان کے چار سالہ دور اقتدار کی ساری داستان کو صرف ایک جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ”وہ قومی تاریخ کے سب سے طاقتور اور سب سے ناکام حکمران نکلے۔“ اتنی طاقت و توانائی تو کسی سیاہ رنگ پتھر میں بھر دی جائے تو اس سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں، لیکن ستم یہ ہوا کہ اپنے سامنے امکانات اور ممکنات کا ایک جہان نو کھل جانے کے باوجود خان صاحب کی سوچ اندھے غیظ و غضب میں لتھڑی رہی جسے وہ احتساب کا نام دیتے رہے اور اپنے سیاسی مخالفین پر تازیانے برسا کر نہال ہوتے رہے۔ پونے چار برس یہی ان کا مشن رہا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں معروف لکھاری اور سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان کی نام نہاد کی ریاست مدینہ کی ساری توانائیاں، تمام دعوے، تمام وعدے اور تمام نعرے، سفاک احتساب کی اندھیر نگری کا رزق ہو گئے۔ انہوں نے بطور وزیر اعظم کوئی ایسی کوشش نہیں کی کہ ملک میں سرمایہ کاری آئے، معیشت کو سنبھالا ملے، روزگار کے مواقع نکلیں، مہنگائی میں کمی ہو، عوام کے زخم بھریں، پاکستانیوں کے چہرے پر نکھار آئے اور بیرونی دنیا میں پاکستان کے نام و مقام میں اضافہ ہو۔ ان کے دل کی آسودگی ان باتوں میں تھی کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ نواز، کیپٹن (ر) صفدر اور شریف خاندان کے دیگر متعلقین پر کتنے مقدمات قائم ہوئے؟ کتنوں میں سزا ہوئی؟ اگر نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی؟ فلاں کو ہتھکڑی کیوں نہیں لگائی گئی؟ فلاں کو جیل میں بی کلاس کیوں دی گئی؟ فلاں کا کھانا گھر سے کیوں آیا۔
بقول عرفان صدیقی، عمران کی نیندیں قوم و ملک کو درپیش مسائل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے حرام رہتی تھیں کہ ان کا فلاں حریف ابھی تک آزاد کیوں پھر رہا ہے۔ وہ مسلسل چور ڈاکو کا ورد کرتے اور بتاتے رہے کہ یہ لوگ اربوں کھربوں لوٹ کر باہر لے گئے ہیں۔ میں ان سے ایک ایک پائی واپس لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ اس کی جھلک چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بریفنگ میں ملتی ہے جو چند دن قبل قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو دی گئی۔ جس ادارے کو نیچے کے ادنی اہلکار سے لیکر چیئرمین تک، شریف خاندان اور دیگر سیاسی حریفوں کی کرپشن کھنگالنے اور لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کا فریضہ سونپا گیا، اس کا کہنا ہے کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کل 882 ارب روپے بازیاب کرائے ہیں۔ لیکن سیاستدانوں سے برآمد کی گئی کل رقم صرف سینتالیس کروڑ روپے ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران کے 44 ماہ کے کارہائے نمایاں اور ترجیحات تو ایک مقالے کا موضوع ہیں۔سیاسیات کے کسی طالب علم کو اس پر ضرور کام کرنا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ ان کے اسلاف میں کیسے کیسے نابغے گزرے ہیں۔ اب لمبی کتھا کو یہیں چھوڑتے ہوئے خان صاحب کی اس درخشاں تاریخ پر ایک نظر ڈالیے جو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا ناقوس بجنے کے بعد رقم کی۔ پہلے پھیپھڑوں کی پوری قوت کے ساتھ نعرہ لگایا کہ ”اللہ تو نے میری سن لی۔ یہ تحریک عدم اعتماد لا کر میرے نشانے پر آ گئے ہیں۔ میں ایک بال پر تین وکٹیں اڑا دوں گا۔ میں ان کے ساتھ وہ کروں گا جو یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔“ موصوف نے اسکے بعد جلسوں میں اپوزیشن کو بے نقط سنائیں۔ انہیں طرح طرح کے تحقیری ناموں سے پکارا۔ چوہے قرار دیا۔ موجوں کا اضطراب بڑھتا گیا۔ کشتی کے تختے چرچرانے لگے۔ ساتھی چھلانگیں لگانے لگے۔ کسی نے سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو رعونت سے جھٹک دیا۔ پوٹلی میں کارکردگی کی پونجی نہ تھی کہ عوام کو یاد دلاتے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جب سورج سوا نیزے پر آ گیا تو خان صاحب نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی ایک جائزہ رپورٹ والا کاغذ فضا میں لہرایا اور کہا کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کردی ہے اور ساری اپوزیشن ڈالر لے کر امریکہ سے جا ملی ہے۔ یہ خط پچھلے بیس روز سے معمول کی ڈاک کے طور پر آیا پڑا تھا۔ پھر اصول پسندی کو ہوس اقتدار کی بھٹی میں جھونکتے چلے گئے۔ انہوں نے اسی دوران چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا۔ صرف اس لیے کہ ان کے پاس پانچ ووٹ تھے۔ بات پھر بھی نہ بنی تو پونے چار برس تک ”این۔ آر۔ او نہیں دوں گا“ کے فلک شگاف نعرے لگانے والے کپتان نے روایتی اسٹیبلشمنٹ کو پکارا کہ مجھے اپوزیشن سے این آر او دلوا دو۔ یہ کہانی آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بیان کر چکے ہیں۔ اپوزیشن نے عمران کی پیش کردہ تینوں تجاویز مسترد کر دیں۔ چنانچہ انکے لیے سوئے مقتل قدم بڑھانا نا گزیر ہو گیا۔ مقتل کے تصور سے ہی خان صاحب کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ قربانی کے زیر خنجر جانور کی طرح تڑپنے، پھڑکنے لگے اور پاؤں پٹخنے لگے۔ یہاں سے ان کا وہ چہرہ سامنے آیا، جس پر آئین، قانون، جمہوری روایات، اقدار اور اخلاقیات کا کوئی ادنیٰ سا عکس جمیل بھی نہ تھا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ یقین ہو جانے کے بعد کہ میں پارلیمانی اکثریت کھو چکا ہوں، عمران نے ووٹنگ کرانے میں حتیٰ الامکان تاخیر کی اور ایک ماہ تک ہر اور اوچھا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ووٹنگ کی تاریخ سر آن پڑی تو ڈپٹی اسپیکر کو حکم صادر ہوا، ”قرارداد عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش کے ساتھ جوڑ کر مسترد کر دو۔“ آئین شکن قاسم سوری نے یہی کیا۔ خان صاحب نے اس آئین شکنی کو اپنی طلسمی پٹاری کا ”سرپرائز“ قرار دے کر اپوزیشن کا مضحکہ اڑایا۔ پلک جھپکنے میں قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ سمری پر دستخط کرنے کے لیے صدر عارف علوی کو پہلے ہی وزیر اعظم ہاؤس لا بٹھایا گیا تھا۔
معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ ایک نہایت واضح، دو ٹوک اور غیر مبہم فیصلہ صادر ہوا۔ عدم اعتماد کے لئے تاریخ اور وقت کا تعین بھی ہو گیا۔ خان صاحب نے فرمان جاری کیا۔ ”تعطل پیدا کرتے رہو۔ ووٹنگ نہیں کرانی“ ۔ صبح ساڑھے دس بجے سے شروع ہونے والا اجلاس وسط شب تک چلتا رہا۔ کئی کئی گھنٹوں کے وقفوں کے دوران ”آخری بال تک لڑوں گا“ کے نعرے گونجتے رہے۔ یہاں تک کہ عدالتوں کے دروازے کھلنے اور فضاؤں میں ہیلی کاپٹر اڑنے لگے۔ بقول عرفان صدیقی، معلوم نہیں خان صاحب نے ”آخری بال“ کھیلی یا نہیں، لیکن وہ بڑی طرح میچ ضرور ہار گئے۔ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے سے تو نہ روک سکے لیکن صدر عارف علوی کو سختی سے روک دیا کہ وہ نو منتخب وزیر اعظم سے حلف نہ لیں۔ کیا یادگار عہد تھا کہ امر ہو گیا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اقتدار میں پونے چار سال کچھ کم عرصہ نہیں ہوتا۔ امریکی صدر کی تو آئینی میعاد ہی چار سال ہے۔ خان صاحب نے اس طویل عرصے میں کیا کیا؟ اس سوال کا جواب دینا نہ ان کے اپنے لئے ممکن ہے نہ ان کے گز گز بھر لمبی زبانیں رکھنے والے ترجمانوں کے لیے۔ خان صاحب کے نامہ اعمال میں کچھ ایسا ہے ہی نہیں جسے سر اٹھا کر عوام کی بارگاہ میں پیش کیا جا سکے۔ گالیاں، الزامات، تہمتیں اور مغلظات کا لہجہ کتنا ہی بلند آہنگ کیوں نہ ہو، کسی حکومت کی کار گزاری کا حسن نہیں بن سکتا۔ سیاسی حریفوں کو کتنے ہی ریفرنسز، مقدموں، تھانوں، کچہریوں، عدالتوں، پیشیوں، سزاؤں اور جیلوں میں کیوں نہ الجھا دیا جائے، کسی حکومت کی مانگ میں سندور نہیں بھرتا۔ ساری دنیا میں ازل سے ایک ہی پیمانہ ہے۔ اپنے منشور پر عمل، اپنے وعدوں اور دعوئوں کی تکمیل، ملکی ترقی و خوشحالی، خلق خدا کی فلاح و بہبود اور مسلمہ جمہوری اقدار کی پاسداری۔ انہی اجزاء سے کسی حکومت کی کارکردگی کی تصویر ابھرتی ہے۔ عمران پاکستانی سیاسی تاریخ کے سب سے طاقتور اور سب سے با اختیار وزیراعظم تو بنادیئےگے لیکن پونے چار برس میں انہوں نے خود کو پاکستان کا ناکام ترین حکمران ثابت کر دیا۔

Related Articles

Back to top button