شہباز شریف کیخلاف شہزاد اکبر کے الزامات جھوٹے کیسے ثابت ہوئے؟

ایک جانب قومی احتساب بیورو نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خبروں کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف کارروائی تیز کرتے ہوئے انہیں دوبارہ طلب کیا ہے تو دوسری جانب برطانوی عدالتی کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات نے واضح کر کیا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے شہباز کو منی لانڈرنگ، فراڈ، بدعنوانی اور عوامی عہدے کے غلط استعمال کے الزامات سے بری کیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی مرتضی علی شاہ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ برطانیہ کی سپر اینٹی کرپشن فورس نیشنل کرائم ایجنسی یا این سی اے نے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کی عدالت کو بتایا کہ اسے شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ، بدعنوانی اور عوامی عہدے کے غلط استعمال میں ملوث ہونے کو ’ثابت یا غلط ثابت‘ کرنے کے لیے ہائی پروفائل تحقیقات شروع کرنے کی ہدایات ملی تھیں۔
اسے دونوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی ہدایت بھی ملی تھی، تاہم تحقیقات کے بعد این سی اے نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ، بدعنوانی عنوانی اور عوامی عہدے کے غلط استعمال کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر کارروائی ختم کر دی۔
دوسری جانب نواز شریف کے احتساب کا علم لے کر نکلنے والے وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے اس کیس میں جھوٹا پڑنے پر شرمندگی سے بچنے کے لیے یہ دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف این سی اے کی تحقیقات کا حصہ ہی نہیں تھے۔
ایم کیو ایم کی شہباز شریف کیساتھ کپتان کے خلاف گفتگو
تاہم اب ملنے والے برطانوی عدالتی کاغذات سے واضح طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ ساری تفتیش شہباز شریف اور ان کے بیٹے اور ان کے دوست ذوالفقار احمد پر مرکوز تھی۔ این سی اے نے شہباز شریف کے ملکیتی دو فلیٹس، ان کے بینک اکاؤنٹ اور سلیمان کے اکاؤنٹس میں تقریباً 700000 پاؤنڈز کی منی ٹریل کی چھان بین کی جسے مبینہ طور پر شہباز شریف نے پاکستان سے منتقل کیا تھا۔
اس سے پہلے شہزاد اکبر اور ڈیوڈ روز نے جولائی 2019 میں ڈیلی میل میں اعتراف کیا تھا کہ این سی اے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ این سی اے کا کہنا تھا کہ شریفوں کے برطانیہ میں موجود فنڈز پاکستان میں مجرمانہ طرز عمل سے حاصل ہونے کا شبہ ہے۔
این سی اے نے ڈیلی میل کے الزامات، نیب ریفرنس، ایف آئی اے کی ایف آئی آر اور منی لانڈرنگ کے ثبوت کے طور پر شہزاد اکبر کی جانب سے دیے گئے دیگر شواہد پر انحصار کیا جبکہ شہباز شریف سے آف شور اکاؤنٹس کے لیے آف شور علاقوں میں بھی تفتیش کی۔
تحقیقات کے بعد این سی اے نے غلط کام، منی لانڈرنگ یا مجرمانہ طرز عمل کا کوئی ثبوت نہ ملنے پر شہباز اور انکے بیٹے کے خلاف فوجداری تفتیش ختم کردی۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اعتراف کیا کہ اسے کسی قابل بازیافت اثاثے کا سراغ نہیں ملا۔ شہباز شریف کے خلاف این سی اے کی تحقیقات تقریباً دو سال تک جاری رہیں لیکن مجرمانہ طرز عمل یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ نومبر 2021 میں تحقیقات کو بند کر دیا گیا.
جب این سی اے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ شہباز اور ان کا خاندان کسی بھی قسم کے غلط کام میں ملوث ہے۔ یوں شہباز شریف کو کلین چٹ دے دی گئی، انکے خلاف کیس خارج کر دیا گیا اور شریف خاندان کے تمام منجمد اثاثے بحال کر دیے گے۔