پتنگ بازوں کی گرفتاری کے لیے ڈرون کیمروں کا استعمال شروع

پنجاب پولیس نے بسنت کا موسم شروع ہوتے ہی پتنگ بازی پر عائد پابندی توڑ کر پتنگیں اڑانے والے لوگوں کی گرفتاری کے لیے ڈرون کیمروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر پتنگ اور ڈور کی آن لائن فروخت روکنے کے لیے بھی پولیس نے جعلی گاہکوں کے ذریعے قانون توڑنے والوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں پتنگ بازی کی روایت دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایک زمانے میں پتنگ بازی پر پابندی لگنے سے پہلے اس کاروبار سے ملک بھر میں لاکھوں افراد کا روزگار بھی وابستہ تھا، لیکن 2006 میں دھاتی ڈور سے گردنیں کٹنے اور اموات کے واقعات کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے نہ صرف لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا بلکہ بانس، دھاگے، گوند اور کاغذ کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
پاکستان میں پتنگ بازی پر پابندی کے باوجود اس کھیل کی سماج میں جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا، پتنگ بازی پر پابندی کا بنیادی محرک وہ دھاتی اور کیمیکل لگی تار ہے جس کی وجہ سے ہر سال درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ چاہے شہباز شریف ہوں یا عثمان بزدار، دونوں اس معاملے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی رکھتے رہے ہیں اور پتنگ بازی پر لگی پابندی پر مکمل عملدرآمد کروانے کے حکم پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے، کسی علاقے میں پتنگ اڑتی دیکھی جائے یا کٹی پتنگ کی ڈور سے کوئی حادثہ رونما ہوا تو اس علاقے کا ایس ایچ او اس کا ذمہ دار قرار پاتا ہے۔ چنانچہ پولیس پتنگ بازی کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات کرتی ہے۔
لیکن اتنی سخت پابندی اور احکامات کے باوجود آج بھی ملک بھر میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص پتنگوں اور کیمیکل لگی ڈور کی فروخت جاری ہے، اس ڈور کی وجہ سے سال 2022 کے پہلے دو مہینوں میں دو انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور 47 افراد زخمی ہوئے۔ فروری اور مارچ یعنی بہار کا موسم پتنگ بازوں کا محبوب ترین موسم کہلاتا ہے، کسی دور میں بسنت بھی اسی موسم میں ہوا کرتی تھی لیکن جانوں کے ضیاع کے باعث اب اس موسم میں پنجاب بھر میں پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کے خلاف کارروائی تیز تر یو جاتی ہے۔ دوسری طرف پتنگ ساز مختلف جدید طریقے استعمال کر کے پتنگیں اور ڈوریں بیچنے میں مصروف ہیں، پتنگ بیچنے والوں نے اب پولیس کی نظروں سے بچنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں لیکن جو طریقہ سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہو رہا ہے وہ ہے سوشل میڈیا کے ذریعے پتنگ اور ڈور کی فروخت۔
غیر قانونی کاروبار کرنے والے پتنگ فروش سوشل میڈیا کی مختلف ایپس استعمال کر کے اپنی تیار کردہ پتنگوں اور ڈوروں کی تصویریں شیئر کرتے ہیں اور گاہکوں سے رابطہ ہو جانے کے بعد خفیہ مقام پر یہ چیزیں طے شدہ قیمت کے بدلے ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔
پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کامران عادل نے بتایا کہ پتنگ ساز اب سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں آتے ہیں، چاہے وہ واٹس ایپ ہو، یا فیس بک یا انسٹا گرام وہ مختلف گروپس میں اپنے نئے سٹاک کی تصاویر شئیر کرتے ہیں جنہیں لوگ خریدتے ہیں۔ کامران کے مطابق پولیس کو پتنگ فروشوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا علم ہوا تو ان کے نیٹ ورکس توڑنے کے لیے انہی کے طریقے اپنانے کا فیصلہ کر لیا، ہمارے کئی افسران نے شناخت تبدیل کر کے ایسے افراد کو سوشل میڈیا سے ٹریپ کیا اور پتنگ خریدنے کے بہانے انکو گرفتار کرلیا۔ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پولیس قانون توڑنے والے پتنگ بازوں کو پکڑنے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہی ہے، اسی طرح طاقتور دوربینوں کی مدد سے بھی ان لوگوں کو ٹریس کیا جاتا ہے جو چھپ کر اپنے گھروں کی چھتوں پر پتنگ بازی کر رہے ہوتے ہیں، فیصل آباد پولیس نے پتنگ سازوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک مختلف اور غیر روایتی طریقہ اپنایا ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈی آئی جی کامران عادل کا کہنا تھا کہ فیصل آباد کے سینٹرل پولیس آفیسر مبشرمیکن نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے بار بار پتنگ سازی کے جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے 16 ایم پی او کے قانون کے ذریعے نقص امن کے خدشے کے تحت نظر بند کر دیا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کو ایک ایک مہینے کے لیے ان کے گھروں پر نظر بند کیا گیا، نظر بند ہونے والے افراد پر پتنگ بازی کے درجنوں مقدمات پہلے ہی موجود ہیں۔
پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال صوبہ بھر میں پتنگ فروشوں اور پتنگ بازوں کے خلاف جاری آپریشن میں اب تک 3146 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 3343افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کے قبضے سے چار لاکھ کے قریب پتنگیں اور آٹھ ہزار سے زائد ڈوریں برآمد کی گئیں۔ تاہم اس کے باوجود پتنگ بازی کے شوقین اب بھی اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ہر طرح کے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
Start using drone cameras to catch kite surfers Urdu News