بلوچستان میں زعفران کی کاشت کا تجربہ کامیاب

یونان کا سرخ سونا کہلانے والے زعفران کی کاشت دنیا میں تین صدیوں سے جاری ہے، زعفران کو فاتح عالم کہلانے والے سکندر اعظم نے جنگ میں لگنے والے زخموں کے مرہم کے طور پر بطور دوا دریافت کیا تھا جو بعد ازاں ایک بیش قیمت مصالحے کی حیثیت اختیار کر گئی۔

ساوتھ ایشیا میں زعفران صرف کشمیر کے علاقے میں کاشت کی جاتی ہے لیکن اب بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ، مستونگ، پشین، قلات، کشمیر اور سکردو میں تجرباتی طور پر زعفران کی کاشت شروع کی گئی ہے اور یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔

زعفران کا نام سنتے ہی ذہن میں ہمیشہ کشمیر کا نام آتا ہے، یہ ٹھنڈے پہاڑی علاقے میں کامیابی سے کاشت یو جاتی یے فصل ہے اسی لیے اب اسے بلوچستان میں کوئٹہ، مستونگ، پشین اور قلات میں تجرباتی طور پر کاشت کیا جا رہا ہے۔ زعفران کو دنیا کا سب سے قیمتی مصالحہ سمجھا جاتا ہے، زعفران کی دو اقسام زیادہ پسند کی جاتی ہیں، ایک سپین کی اور دوسری ایرانی زعفران، ہمارے خطے میں اُگائی جانے والی زعفران ایرانی قسم سے تعلق رکھتی ہے.

ایرانی ویرائٹی کو ’’سرگل یا نگین‘‘ کہا جاتا ہےاور اس کا بوٹینکل نام ’’کروکس سیویٹس ہے۔ زعفران بنیادی طور پر جامنی پھولوں کا زر دانہ یا سٹگما ہوتا ہے، جسے پھولوں سے الگ کر کے نکال لیا جاتا ہے، یہ ہی زردانہ بازار میں زعفران کے طور پر بیچا جاتا ہے، جو کھانوں، بیوٹی، کریموں اور ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے، اسے تیز نارنگی رنگت، خوشبو اور ذائقہ کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔

کرونا نے مزید 39 افراد کی جان لے لی، 34سو سے زائد نئے کیس

بلوچستان میں سب سے پہلے زرعی یونیورسٹی کوئٹہ کے سپیشل کراپ ڈیپارٹمنٹ میں زعفران کی تجرباتی فصل کاشت کی گئی تھی، زرعی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر سپیشل کراپ ڈاکٹر محمد شکیل نے بتایا کہ جب ہمیں کامیاب نتائج حاصل ہوئے تو ہم نے کاشتکاروں کو زعفران کے بلب فراہم کیے تاکہ وہ اس کی کاشت کر کے زیادہ منافع حاصل کریں، پچھلے تین سالوں نے ثابت کیا ہے کہ بلوچستان کے سرد علاقوں میں اس کی کاشت کامیاب رہی ہے۔

شکیل کے مطابق بلوچستان کے ٹھنڈے علاقے زعفران کی کاشت کے لیے بہترین ہیں، کسان دو سے تین سالوں میں ہی اچھی فصل اُگا رہے ہیں اور انہیں مناسب منافع بھی ملا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زعفران لگانا بھی آسان ہے اور پانی کی بھی بہت زیادہ ضرورت نہیں پڑتی ہے، ضلع قلات کی تحصیل منگوچر میں جہاں کئی کسان پچھلے تین سالوں سے زعفران کی فصل اُگا رہے ہیں، ان کسانوں میں سے ایک 50 سالہ کسان احمد نواز بھی ہیں۔

منگوچر کے کاشت کار احمد کے مطابق تین سالوں سے ان کا زعفران کاشت کرنے کا تجربہ کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ انکا کہنا یے کہ زعفران کے پودوں کو زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، منگوچر میں پانی ضرور آتا ہے لیکن صرف چھ گھنٹے اور بجلی یہاں نہیں آتی یہاں پانی کی قلت رہتی ہے کیونکہ 800 سے 900 فٹ پر پانی نکلتا ہے، زعفران کی کاشت کے لیے قلات اور ملحقہ علاقے زیادہ سازگار ہیں۔

زعفران کی بوائی کے لیے 35 سیلسیئس سے کم درجہ حرات درکار ہوتا ہے۔ اس لیے جب اگست کے مہینے میں درجہ حرارت گرنے لگتا ہے تو اس کی بوائی کی جاتی ہے، عام طور پر پودوں میں چھ سے آٹھ ہفتوں میں پھول آنے لگتا ہے، یعنی اگست میں کی جانے والی بوائی سے اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں پھول آنے لگتے ہیں۔

ایک کلو زعفران حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ڈیڑھ لاکھ پھول ہوں، لہٰذا یہ ایک صبر آزما کام ہے، اگر کوئی بھی کسان چند بنیادی باتیں جان لے گا تو اچھی پیدا وار حاصل کر سکتا ہے، جیسے لگانے جانے والے بلب کا وزن دس سے بارہ گرام ہونا چاہئے، اس سے کم وزن کے پودوں میں پھول نہیں آتے، کاشت کار کو اس لیے ایک سے دو سال انتظار کرنا پڑتا ہے کہ فارم پر کھلنے والے پھول زیادہ تعداد میں کھلیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب زیادہ بلب ہوں اور ان کا وزن بھی اچھا ہو، تاکہ زیادہ زعفران حاصل کیا جا سکے اور آپ کی فصل کلو ڈیڑھ کلو زعفران پیدا کرے۔

Related Articles

Back to top button