سانحہ کارساز کراچی کے ماسٹر مائنڈز کب بے نقاب ہوں گے؟

سانحہ کارساز کو 14 برس گزر گئے لیکن وفاقی اور صوبائی ادارے بے نظیر بھٹو شہید پر اکتوبر 2007 میں کراچی میں ہونے والے دو خودکش دھماکوں کے ماسٹر مائنڈز کا پتہ چلانے میں ناکام ہیں حالانکہ ان میں 100 سے زائد لوگ مارے گے تھے۔

مشرف دور میں ہونے والے ان خودکش حملوں کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطح کی تین کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں تھیں جو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں قاصر رہیں لہذا یوں لگتا ہے کہ 100 سے زائد معصوم لوگوں کے قتل کے ذمہ دار دہشت گرد کبھی بے نقاب نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ 14 برس قبل 18 اکتوبر 2007 کو سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کارساز کے قریب انکے قافلے پر ہونے والے دو خود کش دھماکوں کے نتیجے میں 130 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے جن کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کے قاتلوں کو سزا ملنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

خیال رہے کہ بینظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت کے باعث خود ساختہ جلاوطن تھیں اور 18 اکتوبر 2007 کو طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئیں تھیں۔ انکا کراچی ایئر پورٹ پر والہانہ استقبال کیا گیا۔ بعد ازاں بینظیر بھٹو کا قافلہ مزار قائد کی طرف رواں دواں تھا جہاں انھوں نے مزار سے متصل باغ جناح میں عوامی اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ جب قافلہ کراچی کی اہم شاہراہ فیصل کارساز کے مقام پر پہنچا تو ان کے قافلے پر دہشت گردوں نے دو خود کش حملے کیے جس کے نتیجے میں 130 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

بینظیر بھٹو پر حملے کا کیس سرکار کی مدعیت میں پہلے روز درج کیا گیا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے دوسری ایف آئی آر درج کروانے کے لئے سیشن کورٹ سے رجوع کیا جس نے درخواست منظور کرتے ہوئے دوسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، لیکن اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کی حکومت نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جب عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت بن گئی تو صوبائی حکومت نے سیشن کورٹ کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر حکومت سندھ کی درخواست واپس لے لی اور سیشن کورٹ کے حکم کے مطابق دوسری ایف آئی آر درج کر لی، جس میں چوہدری پرویز الٰہی اور موجودہ وفاقی وزیر اعجاز شاہ کے علاوہ ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل حمید گل کے نام بطور ملزم شامل کر لیے گئے تھے۔

مقدمے کے اندراج کے بعد ان کے خلاف شواہد نہیں مل سکے۔ کیس کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی نواز رانجھا، جو بعد میں ایک حملے میں مارے گئے تھے، کا کہنا تھا کہ انہوں نے جیش محمد تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی سمیت کچھ گرفتار افغان طالبان سے تفتیش کی لیکن اس کے بعد بھی پولیس حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی تھی۔ کیس کے تفتیشی افسر خالد رانجھا کے قتل کے بعد ایس پی نیاز کھوسو کو تفتیش سونپی گئی۔ کھوسو 2014 میں ریٹائرڈ ہو گئے جس کے بعد مقدمہ سی ٹی ڈی کو منتقل کر دیا گیا جو تاحال کسی پیشرفت کے بغیر دستاویزات میں داخل ہے۔

بینظیر بھٹو کے قافلے پر حملے کی تحقیقات کے لئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے ایک تحقیقاتی ٹربیونل بھی قائم کیا تھا جس کی سربراہی سابق جسٹس ڈاکٹر غوث محمد کو سونپی گئی۔ ٹربیونل نے 40 سے زائد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہی تھے کہ اس دوران بینظیر بھٹو روالپنڈی میں 27 دسمبر کو جان لیوا حملے میں شہید ہو گئیں۔ 2998 عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق سمیت سندھ میں حکومت بنا لی۔ پی پی حکومت کی جانب سے از سرِ نو تحقیقات کرنے کا اعلان کیا اور پارٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ ارباب غلام رحیم کی جانب سے تشکیل شدہ ٹربیونل قابل بھروسہ نہیں ہے۔ اس تحقیقات کے لئے نیا فورم تشکیل دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ حکومتی دور گزر گیا لیکن اس سلسلے میں کوئی نیا ٹربیونل نہیں بنایا گیا اور نہ ہی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

کیا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا دوبارہ ملاپ ممکن ہے؟

ابتدائی دنوں میں کراچی پولیس نے کالعدم جہادی تنظیم حرکت الجہاد الاسلامی کے سربراہ قاری سیف اللہ اختر کو کارساز سانحہ میں گرفتار کیا۔ پولیس کے مطابق بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں قاری سئف اختر کا ذکر کیا تھا کہ وہ ان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پولیس نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج کے روبرو قاری سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کارساز میں اس کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ بعدازاں قاری سیف اللہ اختر افغانستان میں طالبان کے ہمراہ امریکی افواج کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ یہ وہی قاری سیف اللہ اختر ہے جس سے انیس سو اٹھانوے میں میجر جنرل ظہیر عباسی کے ساتھ مل کر بے نظیر حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی سازش کی تھی۔

کارساز سانحہ کے 4 سال بعد 2011 میں تب کے صوبائی وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے کہا تھا کہ اس واقعہ کی مزید تحقیقات بند کر دی گئی ہے کیونکہ آصف زرداری نے کارساز سانحے کی مزید تحقیقات سے روک دیا ہے۔ مرزا کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے انہیں بتایا تھا کہ روالپنڈی سانحے کی تحقیقات بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی تحقیقات متاثر کر سکتی ہیں۔ اس لئے کارساز سانحے کی تحقیقات فی الوقت روک دی جائیں۔ اس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 2012 میں ڈی آئی جی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ یہ کمیٹی بھی کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکی کہ واقعے کے اصل حقائق کیا ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ چیف کی سربراہی میں 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔

اس دوران بینظیر بھٹو کے گارڈ شہنشاہ اور بلال شیخ دونوں الگ الگ اوقات و واقعات میں مارے گئے تھے۔ شہنشاہ کو کلفٹن کے علاقے میں گھر کے باہر 22 جولائی 2008 کو قتل کر دیا گیا جب کہ بلال شیخ جولائی 2013 کو جمیشد کوراٹر میں خودکش حملے میں مارا گیا تھا جس کا الزام لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے شاہد بکک پر لگایا گیا جو بعدازاں عدالت سے عدم شواہد کی بنا پر اس مقدمے سے بری ہو گیا تھا۔

Related Articles

Back to top button