کیا کپتان کے بعد نیا حکمران ملک کو بحران سے نکال پائے گا؟

اپوزیشن اتحاد کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو گھر بھیجنے کی تیاریوں کے تناظر میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اگر اپوزیشن کامیاب ہو بھی گئی تو نیا وزیراعظم ملک کی دگرگوں معاشی صورت حال سے کس طرح نبرد آزما ہوگا اور کیا مہنگائی کا طوفان نئے حکمران کے لئے بھی رسوائی کا باعث تو نہیں بن جائے گا؟

سنیئر صحافی نصرت جاوید اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے ’’نیا ماحول‘‘دکھانے کی علت ہماری سیاسی اشرافیہ کا دیرینہ مشغلہ ہے۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے جال میں پھنساتے ہوئے وہ انگریزی محاورے والی ’’بگ پکچر‘‘ دیکھنے سے قاصر ہیں۔

مہنگائی کے جن پر قابو پانے کا نسخہ فی الوقت ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے پاس موجود ہی نہیں۔ عمران خان کی جگہ جو شخص بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگا وہ آنے والے دنوں میں جان لیوا ہوتی مہنگائی کا حقیقی ذمہ دار تصور ہوگا۔ عمران حکومت کی طرح وہ ملکی تباہی کا دوش ماضی کی حکومت کے سر ڈالنے میں قطعاََ ناکام رہے گا۔ ایسے عالم میں عمران کو اپنا بیانیہ شدومد سے بحال کرنے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔

وہ شہر شہر جاکر دہائی مچانا شروع ہوجائیں گے کہ ’’کرپٹ مافیا‘‘ نے ان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا حالانکہ وہ غیر مقبول اقدامات سے معیشت کو بحال کرنے کی راہ پر گامزن تھے۔ بقول نصرت، شدید تر مہنگائی سے اُکتائے عوام کا بڑا حصہ ان کا یہ دعویٰ کم از کم ہمدردی سے سننے کو آمادہ ہو گا۔

یوں نئی حکومت کو بھی استحکام نصیب نہیں ہوپائے گا۔ یوں پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جہاں 1950 اور 1990 کی دہائیوں میں وزرائے اعظم اپنے منصب پر محض چند دن کے مہمان ہی تصور ہوتے تھے۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے چند ہی ماہ قبل ہماری سیاست میں ’’تازہ خبر‘‘ آنے کے بعد ’’خضر ساہڈا بھائی اے‘‘ والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

1940 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی کم از کم تین نسلوں سے انگریزوں کے وفادار اور ’’بندوبست دوامی‘‘ کی بدولت ’’شرفا‘‘ کہلاتے جاگیرداروں نے تحریک پاکستان کی حمایت شروع کردی لیکن نئی ریاست کے قیام کے بعد اس کے انتظامی امور اپنی گرفت میں لینے کو یہ ’’اشرافیہ‘‘ تیار ہی نہیں تھی کیونکہ یہ مقامی سیاست تک محدود رہنے کی عادی تھی۔ یہ اشرافیہ ’’سرکار‘‘ کو مائی باپ پکارتے ہوئے اس کی سرپرستی کے حصول کو ہمہ وقت بے چین رہتی تھی۔

بقول نصرت، ایسے سیاست دانوں کی جبلی کمزوری کا انگریز ہی کی سدھائی ہوئی افسر شاہی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بتدریج وطن عزیز میں حتمی فیصلہ سازی کا حتمی اختیار ریاست کے سب سے منظم اور طاقت ور ادارے کے پاس چلا گیا۔ سیاسی اعتبار سے یہ اختیار بھی اب ’’بندوبست دوامی‘‘ میں بدل چکا ہے۔ 2017 سے مسلم لیگ ن نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہمیں اس بندوبست سے نجات دلانے کے خواب دکھانا شروع کردئیے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کی ماہانہ تنخواہ 25 لاکھ روپے ماہانہ نکلی

اس نعرے کو عملی صورت فراہم کرنے کے لئے طویل اور صبر آزما جدجہد درکار تھی مگر اس کے لئے دور حاضر کے ’’شرفا‘‘ جنہیں ان دنوں ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کہا جاتا ہے تیار ہی نہیں تھے لہٰذا شہباز شریف سے درخواست ہوئی کہ وہ اپنی ڈیل میکنگ صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ دائمی اداروں کو یاد دلائیں کہ وہ اور ان کی جماعت عمران خان اور ان کی تحریک انصاف سے کہیں بہتر منتظم ہیں۔ انہیں راندئہ درگاہ نہ بنایا جائے۔

نصرت کے خیال میں بظاہر ’’معافی تلافی‘‘ والی فریاد کی اب کم ازکم شنوائی شروع ہوگئی ہے۔ جولائی 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے چند اراکین کو بھی غالباََ ’’تازہ خبر‘‘ مل چکی ہے۔ عمران خان کو اسی باعث تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے محلاتی سازشوں والی ملاقاتیں شروع ہوچکی ہیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ بالفرض عمران خان کی چھٹی ہوگئی تو کیا عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات ملے گی۔ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ عمران حکومت نہیں بلکہ ریاست پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین سالہ ایک معاہدہ کررکھا ہے۔یہ معاہدہ رواں برس کے ماہ ستمبر تک لاگو رہے گا۔

دریں اثناء تقریباََ چار ماہ بعد نیا بجٹ بھی متعارف کروانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کا تقاضہ ہے کہ اس کے ذریعے 480ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں ۔بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی ناقابل بر داشت حد تک بڑھانا ہوں گی۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اس کا اثر ہمارے ہاں بھی نمودار ہوتا رہے گا۔ ایسے عالم میں عمران خان اپنے منصب پر برقرار نہ بھی رہیں تو میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کو چین ہرگز نصیب نہیں ہوگا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خاطر برپا ہوئی ’’آنیاں جانیاں‘‘ میں فقط اسی صورت سنجیدگی سے لینے کو تیار ہوتا اگر اس تحریک کا دام بچھانے والے نیک نیتی سے یہ وعدہ کرتے سنائی دیتے کہ عمران خان کی جگہ جس شخص کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا جائے گا وہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدہ پر مزید عمل درآمد سے قطعاََ انکار کردے گا اور اسے از سرِ نو مذاکرات پر مجبور کرے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا وعدہ ٹھوس انداز میں ہو نہیں رہا۔

چند ہی روز قبل بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کامل خودمختاری فراہم کرنے والے قانون کی بسرعت منظوری یقینی بنانے کے لئے سینٹ سے قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کے علاوہ اپوزیشن کے سات دیگر اراکین بھی غیر حاضر رہے۔ یہ غیر حاضری مجھ ایسے جھکی کو ’’دانستہ‘‘ محسوس ہوئی تھی۔ اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے میں عمران خان کی جگہ سنبھالنے والے وزیر اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانے کی امید باندھنے سے قطعاً قاصر ہوں۔

Related Articles

Back to top button