اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہو جانے کے شواہد مل رہے ہیں

سینیئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی تبدیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے بغیر نہیں آ سکتی لہذا اگر اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا یقین یو چکا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے عمران خان کو ہٹانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور اسکی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپوزیشن کے پاس بھی اس وقت ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کا کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں۔

حامد میر نے یہ باتیں نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آصف زرداری اور ن لیگ کے سینئر رہنماؤں سے کہا تھا کہ آپ عمران خان کو نکالنا چاہتے ہیں، تو 100 دفعہ یہ کام کریں لیکن خدارا یہ تو بتائیں کہ کیا حکومت سنبھالنے کے بعد آپ آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی ڈیلز منسوخ کریں گے تاکہ مہنگائی ختم ہوسکے؟ اس سوال کا جواب دونوں جماعتوں کے قائدین کے پاس نہیں تھا۔ وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ پاکستان ڈوب رہا ہے، اور ہماری فوری ترجیح اس کو بچانا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پہلے عمران کو نکالو، باقی باتیں بعد میں دیکھ لیں گے۔ حامد میر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کیلئے عمران خان کو اقتدار سے نکالنا کوئی مشکل نہیں، اس کیلئے تمام تیاریاں کر لی گئیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے کم از کم 26 بندے اپوزیشن کیساتھ ہیں لیکن لگتا ہے صرف چہرہ تبدیل ہوگا، ملکی مسائل جوں کے توں رہیں گے، کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا سرے سے کوئی پلان ہی موجود نہیں ہے۔

رضا رومی نے حامد میر سے سوال کیا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان کے بیرونی اور اندرونی مسائل ٹھیک ہو جائیں گے؟ اس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی حکومت میں بہت ہی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ میں اس سوال پر بطور صحافی نہیں بلکہ وارث میر کے بیٹے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔ مجھے اس حکومت نے بہت ذیادہ تکلیف پہنچائی۔

میرے چھوٹے بھائی عمران میر کو پی ٹی وی سے نکالا گیا۔ اس کے بعد عامر میر پر صحافت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ لاہور میں میرے والد کے نام سے منسوب انڈر پاس کا نا صرف نام تبدیل کیا گیا بلکہ فیاض الحسن چوہان نے ان پر غداری کے گھٹیا الزامات لگائے۔ ایف بی آر کی طرف سے مجھے جعلی اور جھوٹے نوٹسز دیئے گئے۔ پھر مجھ پر پابندی لگا دی۔ اسکے بعد عامر میر کو گرفتار کروا دیا گیا۔ مجھ پر بغاوت کے مقدمے قائم کرائے گئے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ جو کچھ میرے اور میری فیملی کیساتھ کیا گیا وہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا بدلہ میرا اللہ لے گا۔ مجھے اب عمران سے کوئی ہمدردری نہیں ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود میرا یہ ماننا ہے کہ اگر اپوزیشن عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے اور پاکستان کو بچانے کے لیے نکلتی ہے تو پھر کوئی ایجنڈا تو پیش کرے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ سینئر صحافی نے کہا کہ صرف چہرہ بدلنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمیں کوئی لائن آف ایکشن یا پروگرام نہیں دیا جا رہا۔

حامد میر نے بتایا کہ میری انفارمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے لگ بھگ 22 بندے ن لیگ میں چلے جائیں گے۔ دو، تین جے یو آئی کے پاس چلے جائیں گے جبکہ اتنی ہی تعداد میں پیپلز پارٹی میں جائیں گے۔ اپوزیشن کے پاس کم از کم 26 زائد ووٹ ہیں۔ ایسے میں عمران خان کیلئے شدید مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ وزیراعظم کو ہٹانا اپوزیشن کیلئے کوئی بڑا ٹاسک نہیں۔ بڑا ٹاسک تو یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے کے بعد اپوزیشن والے پاکستانی معیشت کو سنبھال پائیں گے؟ اس سوال کا جواب ہمیں نہیں دیا جا رہا۔

تحریک عدم اعتماد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ باتیں کافی عرصے سے کی جا رہی ہیں لیکن اس معاملے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلاف تھا۔ پیپلز پارٹی کہتی تھی کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے جبکہ ن لیگ اسمبلیوں سے استعفے دینا چاہتی تھی۔

عمرامین، شاہ محمد کی نااہلی کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

اس معاملے میں عوامی نیشنل پارٹی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی جبکہ کئی اور جماعتوں نے بھی اس کی تائید کی تھی لیکن مسلم لیگ ن سمجھتی تھی کہ اسمبلیوں سے استعفے اور لانگ مارچ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ پھر ہوا یہ دونوں پارٹیوں میں اختلافات اس قدر شدید ہو گئے کہ انہوں نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے باہر آ گئی۔ انہوں نے کہا کہ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انھیں احساس ہوا کہ ہمارے آپس کے اختلافات کا عمران خان فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لئے بیک ڈور چینل رابطے شروع کرکے طے کیا گیا کہ عمران خان کو نکالنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔

حامد میر نے کہا کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں اب یہ سمجھتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے، اس لئے انہوں نے حکومت کیخلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے اندر کی بات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عمران کیخلاف تحریک عدم اعتماد جلد لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی کچھ چیزیں طے ہونا باقی ہیں جن میں اگلے وزیراعظم کے نام پر اتفاق اور آئندہ الیکشن کے وقت کا تعین ہے۔ یہ تمام چیزیں جس دن طے ہوگئی عدم اعتماد بھی آ جائے گی۔ یہ اقدام اسی وقت اٹھایا جائے گا جب دونوں جماعتوں کو یقین ہوگا کہ ہماری نمبرز گیم پوری ہے۔

مرتضیٰ سولنگی نے حامد میر سے پوچھا کہ آپ نے اپنے تجزیے میں ن لیگ اور پی پی پی کے متحد ہونے کی وجوہات میں عمران خان کے سر سے دست شفقت ہٹ جانا اور دونوں جماعتوں کی قیادت کیخلاف کیسوں کو قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بتائیے کہ دونوں میں سے بڑی وجہ کیا ہے۔

جواب میں حامد میر کا کہنا تھا کہ اس کی وجوہات ٹیکنیکل اور سیاسی ہے۔ اسکا ٹیکنیکل پہلو یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق تو اسٹیبلشمنٹ کو حکومت کی مرضی کے مطابق چلنا چاہیے۔ وہ آئین اور قانون کی پابند ہے اور اس کی کسی صورت خلاف ورزی نہیں کر سکتی لیکن پاکستانی سیاست کے حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔

حامد میر نے کہا کہ اس وقت سیاسی صورتحال بڑی دلچسپ ہو چکی ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہے اور حکومت کیساتھ ہے جبکہ اتحادی جماعت ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں بلکہ آج بھی عمران کے ہی ساتھ ہے۔

دوسری جانب وہ جماعتیں جو عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہیں وہ بند کمروں ہاتھ ہلا ہلا کر اور انگلی گھما گھما کر ہمیں کہتے ہیں، ” او پا جی، اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہو گئی جے” حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان تک مجھے کہہ چکے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے، اب میری ایسی مجال کہاں کہ میں انھیں اس بات پر چیلنج کروں۔

رضا رومی نے حامد میر سے سوال کیا کہ آپ انفارمیشن اکھٹی کرکے اس پر اپنا تجزیہ کرنے کے ماہر صحافی ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال پر آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل ہو چکی ہے یا اس کا سفر اس جانب جاری ہے؟ اس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج اشارہ ہیں کہ ماضی کی طرح اب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اتنی نہیں رہی۔

لیکن یہاں کامل علی آغا کی بات بھی اہمیت کی حامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں لیکن اس کے دوسرے ہی دن الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو نااہل کر دیا۔ حامد میر نے کہا کہ یہی سوال میں نے مسلم لیگ ق کے ایک اہم رہنما کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا تھا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل نہیں تو فیصل واوڈا کس طرح نااہل ہو گئے؟ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ فیصل واوڈا کی نااہلی اور خیبر پختونخوا بلدیاتی الیکشن جانب اشارہ ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ پیچھے ہٹ چکی ہے۔

تاہم مسلم لیگ ن کے ایک بہت سینئر رہنما جو اس ساری صورتحال سے کافی ڈسٹرب لگ رہے ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر واقعی اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے تو پھر سٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، اس کیلئے تو لوگوں کو فون کئے گئے تھے۔

Related Articles

Back to top button