کیا تحریک لبیک اگلے الیکشن میں کوئی جادو دکھا پائے گی؟

اس عمومی تاثر کے برعکس کہ حکومت کو خود پر عائد پابندی ہٹوانے پر مجبور کر دینے کے بعد تحریک لبیک کی طاقت اور مقبولیت میں کافی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں لبیک ایک مذہبی قوت تو ضرور ہے لیکن یہ اب تک کسی بھی الیکشن میں اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران بھی لبیک کو مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک کم کرنے کے لیے میدان میں اتاراگیا تھا، لیکن اسے کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ ہو پائی لہذا اگلے عام انتخابات میں بھی یہ امید نہیں کی جانی چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر لبیک والے کوئی جادو کر پائیں گے۔
اگلے عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان سیاسی جوڑ توڑ ابھی سے شروع ہو چکا ہے، ایک طرف حکمران جماعت اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی کوشش میں ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں بھی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہیں یہی وجہ ہے ٹی ایل پی کی کے سربراہ کی رہائی کے بعد حکمران جماعت سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ پنجاب میں مذہبی طور پر ابھرنے والی تحریک لبیک آئندہ انتخابات میں 15 سے 25 تک نشستیں حاصل کر سکتی ہے جو کہ مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ شیخ چلی کہلانے والے وزیر داخلہ کے اس بیان پر سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی کو رجعت پسند مذہبی عناصر تو اہمیت دیتے ہیں لیکن سیاسی طور پر اس کی ابھی کوئی حیثیت نہیں یے۔ دوسرا، سانحہ سیالکوٹ میں تحریک لبیک کے ملوث ہونے کے الزامات کے بعد اس کی ساکھ سخت مجروح ہوئی ہے اور اب بڑی سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ چلنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں گی۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف نے بھی تحریک لبیک کی جانب چند قدم بڑھانے کے بعد اب واپسی کا رخ کرلیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے بقول نون لیگ کے امیدواروں کو شکست دینے کے لیے گزشتہ عام انتخابات میں بھی ٹی ایل پی اور جماعت الدعوی کو ملی مسلم لیگ کے نام سے میدان میں اتار گیا تھا جس کے بعد ٹی ایل پی پنجاب کی زیادہ ووٹ لینے والی تیسری جماعت ضرور بنی تھی مگر اس سے ن لیگ کے نتائج پر زیادہ فرق نہیں پڑ سکا اور لبیک کا کوئی امیدوار قومی اسمبلی میں نہ پہنچ پایا۔ لہذا شیخ رشید کا اگلے الیکشن میں لبیک کو 15 سے 25 دینے کا دعوی دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
دوسری جانب ترجمان ٹی ایل پی صدام حسین بخاری نے کہاکہ ان کی ’جماعت مذہبی حکمت عملی کے ساتھ سیاسی میدان میں اترنے کی بھر پور تیاری کر رہی ہے۔ کے پی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ٹی ایل پی امیدواروں نے خاطر خواہ ووٹ لیے اسی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور امیدوار فائنل کیے جارہے ہیں۔‘ صدام حسین کے بقول ’جہاں تک پنجاب میں عام انتخابات کے دوران نشستیں حاصل کرنے کا سوال ہے تو اس بارے میں ابھی کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ ابھی ہم نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد یا علیحدہ سے امیدوار کھڑے کرنے کی منصوبہ بندی شروع نہیں کی ہماری قیادت کا خیال ہے کہ بجائےسیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے، پہلی ترجیح اہلسنت سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ بڑا سیاسی اتحاد بنایاجاسکے۔‘
انہوں نے کہاکہ ’ویسے تو جب ٹی ایل پی کے قائد خادم حسین رضوی کا عرس ہوا تو تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حاضری دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیاتھا، اس لیے سیاست میں راستہ تو ہر ایک لیے کھلا ہے مگر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘ ترجمان ٹی ایل پی کے مطابق ان کی جماعت کی عوامی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے اس لیے اب ہم پہلے سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھریں گے۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ کیا انکی جماعت کا موقف اب سخت گیر کی بجائے سیاسی ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’پہلے بھی حکومت نے علامتی مظاہروں پر بات نہیں سنی تھی تو سخت موقف اپنانا پڑا تھا اب بھی اپنے مطالبات کے لیے پر امن احتجاج کی پالیسی کو ہی ترجیح دیں گے۔‘
ایک اہم سوال یہ بھی یے کہ پنجاب میں ٹی ایل کسی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکے گی؟ اس سوال پر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’تحریک لبیک مذہبی قوت ضرور ہے لیکن ابھی تک اپنی سیاسی طاقت دکھانے میں کامیاب نہیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران بھی انہیں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک کم کرنے کے لیے میدان میں اتاراگیاتھا لیکن زیادہ کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ وہ تیسرے نمبر پر زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ضرور تھی لیکن نشست ایک بھی حاصل نہیں کر سکی تھی۔‘ سہیل وڑائچ کے بقول ’آئندہ عام انتخابات میں بھی وہ زیادہ سے زیادہ بعض نشستوں پر پانچ سے چھ ہزار ووٹ لے سکتی ہے، نشست اب بھی جیتتی دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ گزشتہ کئی انتخابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اب مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے، ہمدردیاں ضرور رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ٹی ایل پی ن لیگ یا کسی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی غلط ہوگا۔‘
نواز کی جھوٹی ضمانت پر شہباز کیخلاف عدالت سے رجوع کا فیصلہ
سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی ٹی آئی ہو، مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی، جو بھی ٹی ایل پی سے اتحاد کرے گا انہیں اسکی عوض سیٹیں دینا پڑے گی، تو جو جماعت نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں اسے کوئی جماعت نشستیں دے کر سیاسی اتحاد کیوں بنائے گی؟‘ صحافی تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ’ٹی ایل پی سوائے ایک پریشر گروپ کے زیادہ اہمیت نہیں بنا سکی، سیاست میں کامیابی کا پیمانہ نشستیں حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن ابھی تک کسی بھی الیکشن میں تحریک لبیک نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہیں جس مقصد کے لیے تیار کیاگیاتھا، وہ پہلے حاصل ہوا اور نہ ہی اب ہوسکتاہے۔‘ سلمان غنی کے بقول ’شیخ رشید نے ٹی ایل پی کی پندرہ سے پچیس تک نشستیں لینے کا جو بیان دیاہے وہ سیاسی دھوکہ ہے جو وہ لوگوں کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کیا ان کے بیانات سے خوفزدہ ہوگی جو ان کی اصلیت جانتے ہیں، کہ وہ غیر سنجیدہ بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ایسے بیانات دینے سے انہیں گریز کرنا چاہیے، وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں لوگوں کو ان کے وہ بیانات بھی یاد ہیں جو انہوں نے ٹی ایل پی کے اسلام آباد مارچ کے دوران رکاوٹیں کھڑی کرکے دیے، اس وقت انہیں
انتہا پسند نظر آنے والی جماعت آج اگر پنجاب میں سیاسی قوت بنتی دکھائی دے رہی ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔‘
انہوں نے کہاکہ ’ٹی ایل پی نے اگر سیاسی میدان میں کامیاب ہونا ہے تو پہلے انہیں سیاسی رویہ رکھنے والی جمہوری جماعت بن کر دکھانا ہوگا۔ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سخت گیر موقف رکھنے کی بجائے عام شہریوں کے مسائل حل کرنے میں وہ سنجیدہ ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی جماعت پنجاب میں سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکی تو ٹی ایل پی فوری کیسے موثرنتائج حاصل کر سکتی ہے؟‘