TTP میں اختلافات شدید، آپسی لڑائی میں مرنے لگے

 ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشتگرد گروپوں میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے،اختلافات کی بدولت دہشت گردوں کے مابین شدید لڑائی جاری ہے۔ لڑائی میں انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے ہیں اور ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشت گرد گروپوں کا صفایا ہونے لگا ہے۔ ،دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کو عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان  کے شدت پسندوں کو سرحدی علاقوں سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔

ذرائع کے مطابق تمام دہشت گرد جو سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور عوامی اجتماعات پر خود کش حملوں میں ملوث تھے اور حکومت پاکستان کی جانب سے جن دہشت گردوں کے سر کی قیمت بھی مقررتھی وہ جاری اندرونی لڑائی میں یا تو مارے جا چکے ہیں یا پھر زخمی ہیں۔

اس حوالے سے سامنے آنیوالی تفصیلات کے مطابق 19جنوری 2022کو تحریک طالبان سوات کا مفتی برجان زخمی ہوا جبکہ سرغنہ مسلم یار مارا گیا۔15 مئی 2022کو ہونے والی جھڑپ میں تحریک طالبان سوات کے دہشتگرد عثمان ، بلال ، جنت گل ، حضرت اللہ سمیت 5دہشت گرد مارے گئے جبکہ دہشت گرد 8 زخمی ہوئے ـ28 مئی 2022 کو تحریک طالبان باجوڑ کا سرغنہ گوہر اور *25 جون 2022 کو ٹی ٹی پی کا زبیرعرف کالا زخمی ہوئے ـ7 اگست 2022 کو ٹی ٹی پی باجوڑ کا دہشت گرد عبداللہ زخمی جبکہ سرغنہ عقابی مارا گیا ،8 اگست 2022 کو جماعت الاحرار کا سرغنہ انور خان مارا گیا ـ14 ستمبر 2022 کو دہشت گرد سرغنہ بادشاہ خان ، اور سرغنہ روشم سمیت 6 دہشت گرد ہلاک جبکہ سرغنہ ذبیح اللہ اور سرغنہ عبدالواحد سمیت 12 دہشت گرد زخمی ہوئے ـ9 اکتوبر 2022 کو تحریک طالبان کے سرغنہ عبداللہ عرف خاکی ، حکومت اور حمزہ زخمی ہوئےـ27 اکتوبر 2022 کوٹی ٹی پی بلوچستان کا سرغنہ بسم اللہ عرف پہلوان مارا گیا۔

دوسری جانب افغان طالبان  نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو سرحدی علاقوں سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔اس بات کا انکشاف وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے پاک افغان سرحد پر مقیم عسکریت پسندوں کو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بسانے کی پیش کش کی ہے تاکہ ان کی سرحد پار رسائی آسان نہ رہے۔وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے حکومتِ پاکستان کو یہ پیشکش دو ماہ قبل کی تھی۔ دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ ماہ دورۂ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کو باہمی طور پر اپنے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔

کابل کی جانب سے ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو سرحد سے دور منتقل کرنے کی تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغان طالبان کی ثالثی میں حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔اپریل میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کررکھا ہے۔

رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں مقیم ہیں اور پاک افغان سرحد سے دور منتقلی سے ان کی پاکستان تک رسائی محدود ہوجائے گی۔تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو افغانستان کے کن علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔

وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان کا یہ مؤقف ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو ان کی حمایت حاصل نہیں۔ البتہ پاکستان کو طالبان حکومت سے یہ گلہ ضرور ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر آکر جو کارروائیاں کرتی ہے اس سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوتی ہے۔ان کے بقول، "پاکستان اس صورتِ حال کا افغان طالبان کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا لیکن یہ ان کی کمزوری ضرور ہے۔”اس سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف بھی کہہ چکے ہیں کہ بظاہر لگتا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا اور مذاکرات کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات بھی کیے گئے تھے جس کے تحت ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم مقامی آبادی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی پاکستان میں آبادکاری عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمتِ عملی تھی جسے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ تاہم پاکستان تحریکِ انصاف ملک میں اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا

سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنے والوں کو پٹہ ڈالنے کا فیصلہ

دفاع کرتی رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button