سخت سوالات پر واک آؤٹ کرنے والا واحد سیاستدان عمران


سابق وزیراعظم عمران خان وہ واحد پاکستانی سیاستدان ہیں جو صرف اپنی مرضی کے صحافیوں کو انٹرویوز دیتے ہیں اور اگر کسی پریس کانفرنس کے دوران سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے تو تحمل سے جواب دینے کی بجائے برہم ہو کر واک آؤٹ کر جاتے ہیں۔

ایسا ایک تازہ واقعہ 27 مئی کو پیش آیا جب پشاور کے صحافی عارف یوسفزئی نے عمران سے کچھ سخت سوالات کیے جواب میں موصوف نے کہا کہ تمہارے سوالات بالکل غلط ہیں، میں تمہیں بڑا سخت ردعمل دے سکتا ہوں لیکن نہیں دوں گا۔ اس کے بعد خان صاحب غصے میں پریس کانفرنس چھوڑ کر بربڑاتے ہوئے چلے گئے۔ عارف یوسفزئی نے عمران سے کہا تھا کہ آپ تحریک چلائیں، دوبارہ سے اقتدار حاصل کریں اور عوام کی خدمت کریں لیکن نفرت اور گالم گلوچ کی سیاست کو فروغ نہ دیں۔ صحافی نے کہا کہ آہ کے ورکرز گلی کو چوں میں آرمی جنرلز کو گالیاں دے رہے ہیں۔ انہیں یہ تربیت کس نے دی ہے؟ ٹویٹر پر کون لوگ ہیں جو نفرت پھیلا رہے ہیں؟ آپ اپنے ورکرز کو پاکستان کے اداروں بالخصوص آرمی اور عدلیہ کے حوالے سے کیا پیغام دیں گے؟ اب عوام توقع کر رہے ہیں کہ آپ اپنے ورکرز کی تھوڑی سی تربیت کرلیں۔انہوں نے مزید سوال کیا کہ آپ کی ٹیموں نے ماضی میں یوٹیوبرز اور key بورڈ وارئیرز کے ذریعے پاکستان فتح کرنے کی کوشش کی۔ اب آپ ایسے یوٹیوبرز اور key بورڈ وارئیرز سے اسلام آباد کیسے فتح کریں گے؟ عارف یوسفزئی نے کہا کہ لوگ آپ کو ووٹ دیتے ہیں۔ آپ کے ساتھ چلتے بھی ہیں لیکن نہ عوام نے آپکے وعدے کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں گرتی دیکھیں، نہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرتے دیکھیں، نہ وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنتے دیکھی، نہ لوگوں نے چوروں کو لٹکتے ہوئے دیکھا۔ ایسے میں آپ آپ دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے جائیں گے تو کون سا نیا نعرہ لگائیں گے؟

اس سوال پر پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ آپ نے بڑا غلط سوال کیا ہے۔ یہاں میری پریس کانفرنس ہو رہی ہے، میں اس سوال کا بڑا سخت جواب اور ردعمل دے سکتا ہوں لیکن نہیں دوں گا۔ اس کے بعد خان صاحب غصے میں کچھ بربڑاتے ہوئے پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔

اس معاملے پر سینئر صحافی علی وارثی کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ نرگسیت کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ دو، تین پریس کانفرنسز تو ایسی بھی ہوئی ہیں جن میں یا تو کوئی صحافی موجود ہی نہ تھا کہ سوال کر سکے یا پھر صرف ARY کا ایک رپورٹر بٹھا رکھا تھا جو کہ ایک طرح سے پارٹی پالیسی کا پابند رہ کر ہی سوال کر سکتا ہے۔ اب انہوں نے 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کرنا تھا تو پالیسی میں ذرا تبدیلی آئی کہ صحافی بھی آ جائیں۔ خان صاحب خود اتنے جارحانہ انداز میں جواب دیتے کہ ٹیڑھے سوال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صحافی یہی سوچتے رہتے کہ کہیں میرے خلاف ہی غداری کا فتویٰ نہ آ جائے۔ خیر، اللہ اللہ کر کے مارچ ہوا۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ خونی انقلاب کی باتیں کرنے کے بعد ان کو دارالحکومت پر دھاوے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جب تک کہ یہ پچھلے دعووں کے لئے معافی نہیں مانگ لیتے۔ وہی ہوا۔ حکومت نے پکڑ دھکڑ بھی کی، پولیس کو بھی متحرک کیا۔ مارچ والے دن صبح سے ہی آنسو گیس کی شیلنگ، پولیس کے لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور کنٹینروں کے ذریعے راستے روکنے کا سلسلہ شروع تھا۔ سپریم کورٹ کا بنچ ایک روز قبل ہی بنا دیا گیا تھا۔ یہ صبح اٹھتے ہی عدالت آ کر بیٹھ گیا۔ سارا دن اس بنچ کی کارروائی بھی جاری رہی۔ حکومت مظاہرین کو بلوائی قرار دے کر ان پر تشدد کرتی رہی۔ سپریم کورٹ نے بالآخر یہ فیصلہ دے دیا کہ مظاہرین کو آنے دیا جائے لیکن ساتھ ہی ان کے لئے ایک جگہ مختص کرنے کا فیصلہ بھی دے دیا۔ بلکہ کپتان کی سہولت کاری کرتے ہوئے جگہ بھی خود ہی مختص کر دی۔

اسکے بعد عمران خان ڈی چوک تو آئے لیکن انہیں دو وجوہات کی بنا پر فوراً ہی واپس بھی جانا پڑا۔ ایک تو سپریم کورٹ کی جانب سے مختص کی ہوئی جگہ سے آگے آ کر وہ توہینِ عدالت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ دوسرے مظاہرین کی حیران کن حد تک کم تعداد کے پیش نظر ان کے پاس دھرنا دینے کی قوت باقی بچی نہیں تھی۔ چنانچہ خان صاحب نے عزت بچاتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔ بس اتنا اعلان کیا کہ چھ دن بعد پھر آؤں گا۔ کارکنان بڑے مایوس ہوئے۔ پارٹی لیڈر کے فیصلے پر تنقید بھی کی۔ خان صاحب نے ضروری سمجھا کہ ایک پریس کانفرنس کر کے اپنا نقطۂ نظر رکھیں اور ورکرز کو اعتماد میں لیں۔ ان کی سوچ تو درست تھی لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ بغیر سوالات یا صرف ARY کے رپورٹر والا فارمیٹ کہاں گیا؟ اسے کیوں متعارف نہیں کروایا گیا؟ لہٰذا یہاں انہیں ایک اصلی والا صحافی ٹکر گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ بقول علی وارثی، اب ایسے سوال کریں گے تو خان صاحب کو غصہ تو آئے گا نا۔

Related Articles

Back to top button