کرکٹ جوئے میں ملوث سلمان بٹ کا ایمانداری پر بھاشن

2010ء کے بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ نے حال ہی میں ایمانداری پر ایک بھاشن دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کرکٹ میں میرٹ اور ایمانداری نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ تاہم ایمانداری کا بھاشن دیتے وقت سلمان بٹ پتہ نہیں کیسے بھول گے کہ انکا اپنا کرکٹ کیرئیر صرف اس لیےذلت پر ختم ہوا کہ انہوں نے چند ٹکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیا تھا۔
ایمانداری اور عزت کمانےمیں برسوں لگ جاتےہیں مگر ایک لمحے کی غلطی سب ضائع کردیتی ہےاور سلمان بٹ کا وہ لمحہ 10سال قبل آ گیا تھا جب انہوں نے چند ٹکوں کی خاطر اپنی اور ملک کی عزت تار تار کی تھی. سلمان بٹ کے ایمان داری کے بھاشن پر تنقید کرنے والوں کا کہنا یے کہ سلمان بٹ کو سب سے پہلے خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ تب ان کی ایمانداری کہاں گئی تھی جب انہوں نے بطور کرکٹ ٹیم کپتان چند پاؤنڈز کی خاطر اپنے ملک کی عزت اپنے ہاتھوں سے داؤ پر لگا دی تھی۔
یاد رہے کہ سلمان بٹ نے ایمان داری پر بھاشن کرکٹر محمد حفیظ کے ایک بیان کے ردعمل میں دیا جس میں انکا کہنا تھا کہ جن کھلاڑیوں نے پاکستان کا نام بدنام کیا اگر انہوں نے اپنی سزا پوری کرلی ہے تب بھی انہیں پاکستان ٹیم میں واپس لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سلمان بٹ نے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ایسے کھلاڑیوں کو جانتا ہوں جنہیں ان کے تعلقات کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا اور متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں کسی خاطر خواہ کارکردگی کے بغیر ٹیم میں کم بیک کے لا تعداد مواقع فراہم کیے گئے، کیا یہ چیزیں کرپشن سے مختلف ہیں؟’
یاد رہے کہ اسپاٹ فکسنگ سکینڈل میں رشوت وصول کرنے کے الزامات ثابت ہو جانے کے بعد محمد سلمان پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سلمان بٹ کی چوری اور سینہ زوری پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اس حقیقت سے کیسے نظریں چُرا سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت سلیم ملک، محمد آصف، خالد لطیف یا ناصر جمشید سے مختلف نہیں جو سب کہ سزا یافتہ فکسرز ہیں اور اسی وجہ سے ان کے کرکٹ کیریئر بھی ختم ہوگے۔
سلمان بٹ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسی پاکستان میں ایسے با ضمیر اور باعزت کرکٹر بھی موجود ہیں جنہوں نے کئی سالوں تک مکمل ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ پاکستان کرکٹ کی خدمت کی اور پاکستان کے لئے عزت کمائی نہ کے اسکی طرح ملک کی عزت کا جنازہ نکالا۔ فضل محمود، عبدالحفیظ کاردار، حنیف محمد، خان محمد، وقار حسن، امتیاز احمد سے مشتاق محمد، ماجد خان، ظہیر عباس، عمران خان، سرفراز نواز، وسیم راجہ تک، وسیم باری، مدثر نذر، جاوید میانداد، اقبال قاسم، محسن خان، عبدالقادر، رمیز راجہ سے سلیم یوسف، شعیب محمد، وقار یونس، عاقب جاوید، سعید انور، عامر سہیل تک، راشد لطیف، شاید آفریدی، شعیب اختر، محمد یوسف، عبدالرزاق، یونس خان، مصباح الحق، عمر گل، محمد حفیظ، سیعد اجمل تک سیکڑوں کھلاڑیوں نے فخر کے ساتھ گرین کیپ پہنی اور اپنی 100فیصد کارکردگی دکھا کر پاکستانی پرچم کو سربلند رکھا۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اوپر درج بالا کرکٹرز ہر غلطی سے پاک تھے، نہیں بلکہ انہوں نے بھی دیگر کھیلوں کی شخصیات کی طرح غلطیاں کی ہوں گی اور ان کے کیریئر میں بھی کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن ان کی کھیل میں دیانت داری پر کبھی بھی سوالیہ نشان نہیں لگا۔
خدا کا شکر ہے کہ ٹیسٹ ٹیم کے موجودہ کپتان اظہر علی اور ٹی20 کپتان بابر اعظم، اسد شفیق، سرفراز احمد، امام الحق، شان مسعود، حارث سہیل، محمد عباس، شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان، حسن علی، نسیم شاہ، یاسر شاہ، عابد علی، یاسر شاہ، محمد رضوان اور متعدد موجودہ پیشہ ورانہ کرکٹرز نے بھی خود کو کرپشن کی لعنت سے دُور رکھا ہوا ہے۔ یاد رکھیے کہ کرپشن ایسی بیماری ہے جو انتہائی خوش اور پُرسکون انسان کو بھی تباہ کردیتی ہے جس کی ایک بہترین مثال ہنسی کرونئے ہیں۔ داغدار کھلاڑیوں کو سزا پوری کرنے کے بعد پاکستان ٹیم کی دوبارہ واپسی کا موقع دیے جانے کے حامی چند کھلاڑیوں کی رائے پر سلمان بٹ نے کہا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر اس مسئلے پر کوئی ایرا غیرا کیسے بات کرسکتا ہے اور اس پر اپنا نقطہ نظر پیش کرسکتا ہے حالانکہ یہ بات معنی ہی نہیں رکھتی۔بٹ نے مذید کہا کہ صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور پی سی بی ہی اس معاملے پر بات کرسکتے ہیں کیونکہ وہ قوانین بناتے ہیں۔
تاہم سلمان بٹ کو یاد کروانا ضروری ہے کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہی تھے جنہوں نے 10سال پہلے لارڈز کے میدان میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے آئی سی سی اور پی سی بی کے اینٹی کرپشن قوانین کی دھجیاں بکھیری تھیں اور کس طرح ایمانداری پر سمجھوتہ کرکے حب الوطنی کا جنازہ اٹھایا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button