امریکی قونصلیٹ نے فیصل واوڈا کی نااہلی میں کیسے حصہ ڈالا؟

تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے اپنی نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی صورت میں بھی ریلیف ملنے کا امکان اس لئے معدوم ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انکی امریکی شہریت بارے غلط بیانی کے پکے ثبوت کراچی کے امریکی قونصلیٹ سے حاصل کر لیے تھے جنکی بنیاد پر انہیں نا اہل قرار دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر تاحیات نااہل قرار دیا ہے اور ان کی سینیٹر شپ کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی امریکی شہریت چھوڑنے کے حوالے سے غلط بیانی کی تحقیق کے لیے کراچی میں موجود امریکی قونصلیٹ کو گذشتہ ماہ خط لکھا تھا جسکا جواب ملنے کے بعد فیصل واوڈا کی نااہلی کا فیصلہ کیا۔

الیکشن کمیشن نے 14 جنوری 2022 کو امریکی قونصلیٹ سے رابطہ کیا اور چند سوالات پوچھے جنکے جواب میں کراچی میں واقع قونصلیٹ نے 26 جنوری 2022 کو تصدیق کی کہ فیصل واوڈا کی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ 25 جون 2018 کو منظور کیا گیا۔ یعنی وہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت امریکی شہری، لہذا یہ ثبوت فیصل واوڈا کی غلط بیانی ثابت کرنے لیے کافی تھا۔

الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے کے مطابق چونکہ ثابت ہوگیا کہ فیصل واوڈا نے 11 جون 2018 کو عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے امریکی شہریت نہیں چھوڑی تھی اور وہ دوہری شہریت رکھتے تھے اس لیے اس بات میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ انہوں نے اپنی ذاتی معلومات کا جھوٹا حلف نامہ جمع کروایا تھا جس کی وجہ سے ان پر آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف لاگو ہو تا یے۔

یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت رکن پارلیمنٹ صادق اور امین نہ قرار پانے پر تاحیات نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بھی اسی اسی قانون کے تحت تاحیات نااہل قرار دے رکھا یے۔

الیکشن کمیش کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق فیصل واوڈا نے 11 جون 2018 کو کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے جو ریٹرنگ افسر نے 18 جون 2018 کو منظور کیے تھے، تاہم فیصل واوڈا نے اپنی امریکی شہریت چھوڑنے کی درخواست کاغذات کی منظوری کے بعد 22 جون کو دی جسے امریکی قونصلیٹ نے 25 جون 2018 کو منظور کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے کے مطابق ’کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ فیصل واوڈا اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت آئین کے آرٹیکل 63 ون سی کے تحت اہل نہیں تھے اور انہوں نے تب ایک جھوٹا حلف نامہ جمع کروایا تھا جو یقینی طور پر آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے زُمرے میں آتا ہے۔‘

عدالتی فیصلہ صدارتی نظام کے حمایتیوں کے لیے جھٹکا

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق اس غلط بیانی کے نتیجے میں فیصل واوڈا کو بطور رکن اسمبلی اور بطور وزیر حاصل کیے گئے تمام مالی فوائد دو ماہ کے اندر واپس قومی خزانے میں جمع کروانا ہوں گے۔ فیصلے کے مطابق فیصل واوڈا نے تین مارچ 2021 کو سینیٹ الیکشن کے دن قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا جس سے معاملہ مزید مشکوک ہوگیا۔

اس لیے ہم متفقہ طور پر سمجھتے ہیں کہ ان کی سینیٹ کی رکنیت کا نوٹی فیکیشن جو 10 مارچ 2021 کو جاری ہوا تھا اسے بھی واپس لیا جائے کیونکہ انہوں نے جھوٹا حلف نامہ دیا تھا جس کے نتائج ہوتے ہیں۔‘ یاد رہے فیصل واپڈا کی کی خلاف درخواست پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر مندوخیل نے دائر کی تھی تھی جنہیں ریٹرننگ افسر نے الیکشن 2018 کے وقت فیصل واڈا کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔

دوسری جانب فیصل واوڈا نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر مختصر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔‘ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصل واوڈا کے خلاف الیکشن کمیشن کے پاس اتنے پکے ثبوت موجود ہیں کہ سپریم کورٹ بھی انہیں ریلیف نہیں دے پائے گی۔

خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل واوڈا کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران فیصل واوڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے حتمی دلائل میں کہا تھا کہ فیصل واوڈا نے پیدائش کا سرٹیفیکیٹ کمیشن میں جمع کروا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری ہیں۔

وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل واوڈا نے غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا، انہوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ تاہم افسوس کی بات ہے کہ نہ صرف فیصل واوڈا بلکہ ان کا وکیل بھی جھوٹ بول رہا تھا۔

فیصل واوڈا کے خلاف درخواست گزار پی پی پی کے قادر مندوخیل نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ڈیڑھ سال سے فیصل سے اپنے دعوے کے حق میں ثبوت مانگ رہا ہے جو نہیں دیا گیا۔ انیون نے کہا کہ الیکشن 2018 کے وقت ریٹرننگ افسر نے دوہری شہریت پر غلط حکم دیتے ہوئے فیصل واوڈا کے بجائے میرے کاغذات مسترد کر دیے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔

Related Articles

Back to top button