عمران نے PTI اراکین اسمبلی پر کون سی آئینی بندوق تانی ہے؟

اپنے سیاسی مخالفین کو بندوق کے نشانے پر رکھنے کا اعلان کرنے والے وزیراعظم عمران خان نے اب اپنی ہی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی پر بھی ایک آئینی بندوق تان لی ہے جس سے وہ تحریک عدم اعتماد کے دوران اپنے خلاف ووٹ دینے کا سوچنے والوں کو شوٹ کر سکیں گے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ارکان کے لیے خصوصی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ دونوں اطراف نے اپنے اپنے ارکان کے تحفظ اور انھیں عدم اعتماد کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کے لیے پابند کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ چونکہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لائی ہے اس لیے آئینی طور پر ووٹنگ کے دن اپنی تحریک کامیاب کروانے کے لیے حزب اختلاف کو وزیراعظم کے خلاف اسمبلی میں 172 یا اس سے زائد ممبران کی حمایت ثابت کرنا ہوگی۔
چنانچہ عمران خان نے اس روز کوئی رسک نے لینے کا پلان بنایا ہے جس کے مطابق وہ اپنے ارکان کو تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے گے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہونے دیں گے۔ وزیراعظم کے قریبی رفیق بابر اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنے ارکان کو پابند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کے روز ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے ایوان میں نہیں جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پابندی کے باوجود اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کرتا ہے اور پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اسکے خلاف ڈیفیکشن قانون یعنی پارٹی پالیسی سے انحراف کے قانون کے تحت نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
منصوبے کے تحت حکومت کی جانب سے صرف مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان ایوان میں جائیں گے جو تحریک عدم اعتماد کی رسمی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی بابر اعوان کو کوئی حکومتی نمائندہ ایوان میں نظر آئے گا وہ سپیکر کو اس کے خلاف نااہلی ریفرنس تھما دیں گے اور سپیکر اس رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روک دیں گے۔
یاد رہے کہ آئین میں آرٹیکل 63 اے 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔ اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکننیت استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نااہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کے خلاف رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔
ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کرسکتے ہیں اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔ اسکے بعد پریذائیڈنگ افسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفرشدہ ہی سمجھا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن مین اس پر فیصلہ کرے گا۔
قانون کے مطابق اگرانحراف ثابت ہو جائے تو متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر کے اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ منصوبہ آئین کے خلاف ہے کیونکہ وہ اپنی جماعت کے باغی اراکین اسمبلی پر ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی نااہلی ریفرنس دائر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپیکر کے پاس کسی بھی منتخب رکن قومی اسمبلی کو ایوان میں پہنچنے کے بعد ووٹ ڈالنے سے روکنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے ہر اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور ان کا کوئی بھی فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا لہذا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام میں سے دو چار ہونے جا رہی ہے۔
دودری جانب اپوزیشن نے بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حکومتی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں جن پر ڈیفیکیشن قانون لاگو نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ اپوزیشن نے اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے بھی حکمت عملی طے کرلی ہے جس کے تحت تمام ارکان کو گروپس میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما کے مطابق ’ہر گروپ کا ایک کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر گروپ کا الگ واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔ ہر گروپ کے کوآرڈینیٹر کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے گروپ کے ارکان کی حاضری یقینی بنائے گا۔ اس دوران اگر حکومت یا سرکاری اداروں کی جانب سے کسی بھی رکن کے خلاف اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور کسی گرفتاری کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس سلسلے میں بھی منصوبہ بندی طے کرلی گئی ہے۔
وزیراعظم کو آئینی طریقے سے گھر بھیجیں گے
وہ رکن سب سے پہلے تو اپنے گروپ کے کوآرڈینیٹر کو بتائے گا۔ ضرورت پڑنے پر جمعیت علمائے اسلام ف کے انصار الاسلام رضاکاروں کو سکیورٹی پر مامور کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں اپوزیشن کے اہم قانونی ماہرین بھی تیاری رکھیں گے تاکہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ اپوزیشن ارکان کو اپنی اپنی رہائش گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ تاہم سب سے اہم ترین سوال اب بھی یہی ہے کہ اگر حکومت اپنے ممبران اسمبلی کو اجلاس میں آنے سے روکتی ہے اور وہ اجلاس میں شرکت پر اصرار کرتے ہیں تو کیا اسپیکر قومی اسمبلی ان کا ووٹ نہ گننے کا اختیار رکھتے ہیں یا نہیں؟