بھارت میں بہادری کی علامت بن جانے والی لڑکی مسکان کون ہے؟

انڈین ریاست کرناٹک میں اپنے تعلیمی ادارے میں حجاب پہننے کی وجہ سے ہراساں کیے جانے کے باوجود ہندو شدت پسندوں کے ہجوم کے سامنے ڈٹ جانے اور اللہ اکبر کے نعرے لگانے والی مسلمان لڑکی مسکان اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ بہادر لڑکی کون ہے۔ مسکان سے اظہار یکجہتی کے لیے انڈیا اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر ’اللہ اکبر‘ ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاہ برقعے میں ملبوس ایک طالبہ سکوٹی چلاتی ہوئی پی ای ایس کالج بنگلور پہنچتی ہیں۔ جب وہ عمارت کی جانب چلنا شروع کرتی ہیں تو زعفرانی شالیں لہراتے سینکڑوں ہندو طالبِ علموں کا گروہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اس لڑکی کو ہراساں کرنے لگتا ہے جس کے جواب میں وہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتی ہے اور مقامی زبان میں کہتی ہے ’کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ہے؟‘ لڑکی کا کہنا تھا کہ اُن کی ترجیح اُن کی تعلیم ہے، مگر ’کپڑے کے ایک ٹکڑے کے پیچھے وہ ہمیں تعلیم کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔‘
مانڈیہ پری یونیورسٹی کالج کی طالبہ نے ہجوم کے سامنے اللہ اکبر پکارنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک کالج انتظامیہ کے کچھ لوگ نے انہیں ہجوم سے بچانے کو نہیں آئے۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں گذشتہ تقریباً دو ماہ سے کئی کالجوں میں حجاب پہننے پر طالبات اور تعلمی اداروں کی انتظامیہ کے درمیان اختلاف جاری ہے۔
یہ معاملہ اب ہائی کورٹ میں ہے لیکن گذشتہ دنوں اس میں نئی چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ حجاب کا مقابلہ اب زعفرانی شالوں سے کیا جا رہا ہے جو انڈین سماج کے مذہبی خطوط پر منقسم ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
کرناٹک میں جاری حجاب تنازع کے حوالے سے امن کی نوبیل انعام یافتہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ملالہ یوسفزئی نے مسکان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’لڑکیوں کو حجاب میں سکول آنے سے روکنا خوفناک عمل ہے۔ کم یا زیادہ لباس کی بنا پر عورتوں کو اب بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
کرناٹک کے علاقے مانڈیا کے پی ای ایس کالج میں حالیہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلم طالبات نے سخت ردعمل دیا ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران ریاست میں متعدد مقامات پر طالبات کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے حجاب پر پابندی واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حجاب کے معاملے پر احتجاج اور اس کے حوالے سے سامنے آنے والے ردعمل کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ 8 فروری کے روز ریاست میں تمام سکول اور کالج تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ کرناٹک کے وزیراعلی نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جہاں مقامی افراد سمیت طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے امن و امان بحال رکھنے کی اپیل کی وہیں تمام ہائی سکولوں اور کالجوں کی بندش کا اعلان کرتے ہوئے متعلقہ افراد سے تعاون کی اپیل کی ہے۔
پنجگور حملے کے بعد جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تیز ہو گیا
دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسکان کا کہنا تھا کہ وہ اس حملے سے پریشان نہیں تھیں، وہ اپنی اسائنمنٹ جمع کرانے کے لیے کالج گئی تھیں۔ لیکن وہاں موجود ہجوم نے انہیں برقعہ میں ملبوس ہونے کی وجہ سے اندر جانے نہیں دیا۔
اس موقع پر ’انہوں نے میرے سامنے شورشرابا کرتے ہوئے نعرے لگائے جس کے جواب میں میں نے بلند آواز میں اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا۔ جب مسکان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو اس سے قبل بھی دیکھا ہے تو انکا کہنا تھا کہ دس فیصد لڑکے کالج کے ہوں گے جب کہ باقی سارے بیرونی عناصر تھے۔ مسکان کا کہنا تھا کہ وہ حجاب پہننے کے اپنے حق سے متعلق جدوجہد جاری رکھیں گی۔
مسکان کا کہنا تھا کہ ہماری تعلیم ہماری ترجیح ہے، لیکن شدت پسند ہماری تعلیم برباد کر رہے ہیں۔ کرناٹک کے مختلف شہروں میں حجاب پر پابندی اور اس کے بعد مسلم طالبات کے احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے مسکان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر وقت برقعہ و حجاب استعمال کرتی تھیں۔ میں کلاس میں حجاب برقرار رکھتے ہوئے برقعہ اتار دیتی تھی۔
یہ ہماری شخصیت کا حصہ ہے، ہمیں پرنسپل نے کبھی اس سے منع نہیں کیا لیکن باہر کے لوگوں نے یہ سلسلہ شروع کیا‘۔ پرنسپل نے ہمیں کہا کہ برقعہ استعمال نہ کریں لیکن ہم حجاب کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی، یہ ایک مسلم لڑکی کی شخصیت کا حصہ ہے۔
سوشل میڈیا پر مسکان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے ہوئے جہاں حکومتی جماعت بی جے بی کے حامی انہیں اور حجاب کی حمایت کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہیں دیگر حلقے ان سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف انداز اپنا رہے ہیں اور مسکان کو ایک بہادر لڑکی کا خطاب دیا جا رہا ہے۔
ریاست میں حجاب کے حوالے سے احتجاج کا سلسلہ تب شروع ہوا جب اوڈوپی کے گورنمنٹ گرلز کالج نے کہا تھا کہ انہیں حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں داخل ہونے سے روک گیا تھا۔ مقامی سطح پر مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا جس کے بعد بی جے پی کے زعفرانی رنگ کے جھنڈے پہنے طلبہ و دیگر نے تعلیمی اداروں میں مارچ کا انعقاد کیا تھا۔
تاہم حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی مسلم طالبات پر تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کچھ انڈین صارفین کا بھی کہنا ہے کہ اگر وہ ایسا چاہتی ہیں تو اس میں کیا غلط ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ میں اوڈوپی کے سرکاری کالج سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین نے حجاب پر پابندیوں کے خلاف درخواست دی ہے جس کی سماعت جاری ہے۔
مسلم طالبہ مسکان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل ٹائم لائنز پر آنے کے بعد اس پر گفتگو کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ ٹرینڈز پینل میں نصف درجن سے زائد ٹرینڈز اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ ان میں ’مسکان‘، ’حجاب رو‘، ’حجاب‘، ’ہندوتوا‘، ’مسلم گرلز‘، ’انڈین مسلمز‘ اور ’اللہ اکبر‘ نمایاں ہیں۔
انڈین پارلیمنٹ کے سابق رکن اور جمعیت علمائے ہند کے سربراہ کی جانب سے مسکان کی جرات کی تعریف کرتے ہوئے ان کے لیے پانچ لاکھ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا گیا۔