عمران خان نے نیوٹرل کو جانور کیوں قرار دے دیا؟

سینئر تجزیہ کار کامران خان نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے “نیوٹرل” کو ایک بھرے مجمعے میں جانور قرار دینے کو ایک خطرناک پیشرفت گردانتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کر کے وہ کسی اور کے لئے نہیں بلکہ اپنے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ انہون نے کہا ہے کہ عمران خان نے جلسہ عام میں موجودہ سیاسی کشمکش کے دوران نیوٹرل یعنی جانبدار کی تعریف مجمع کے سامنے بیان کی تو ان کے ذہن کون تھا اور کیوں تھا؟ خیال رہے کہ جن کتوں اور بلیوں کو گھر میں پالا جاتا ہے ان کو عموما کھسی یا خصی کروا دیا جاتا ہے جسے طبی زبان میں نیوٹرل کرنا کہتے ہیں۔
عمران خان خود بھی کتوں کے شوقین ہیں لہذا انہوں نے لفظ نیوٹرل بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہوگا،
خصوصا جب ان کی تقریر سے ایک روز پہلے فوجی ترجمان نے پریس کانفرنس میں فوج کو غیر جانبدار اور نیوٹرل قرار دیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران خان کی جانب سے سے لفظ نیوٹرل کو ایک جانور سے جوڑنے کا عمل دراصل ان کی بڑھتی ہوئی فرسٹریشن کا اظہار ہے کیونکہ ماضی میں جب یہ جانور نیوٹرل نہیں تھا تو وزیراعظم تمام تر سیاسی انجینئرنگ کے لیے اسی کی مدد لیتے تھے اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کھل کر ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ تاہم آئی ایس آئی میں کمانڈ کی تبدیلی کے بعد ادارہ غیر جانبدار اور نیوٹرل ہو چکا ہے، چنانچہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد وزیراعظم کی فرسٹریشن میں اضافہ ہو چکا ہے اور وہ بظاہر ادارے کو نیوٹرل نہ رہنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اپنی حالیہ تقریر میں عمران خان نے اپوزیشن قیادت پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ میرا مقابلہ آصف رزداری، مولانا ڈیزل اور شہباز شریف نامی تین ڈاکوؤں سے ہے، یہ تینوں ڈاکو مجھ سے این آر او مانگ رہے ہیں، یہ کہتے ہیں عمران اگر تم ہمارے کرپشن کے کیس بند نہیں کرو گے تو ہم تمہاری حکومت گرا دیں گے، میں ان کو کہتا ہوں حکومت گرانا تو میرے لیے آسان چیز ہے، مجھے اپنی جان بھی دینی پڑے تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، میں ان کے خلاف جہاد کررہا ہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس ملک میں انصاف کی جنگ لڑوں گا اور ان کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اچھا برا ہوتا ہے تو اللہ نے تو ہمیں اجازت ہی نہیں دی کہ ہم نیوٹرل ہو جائیں، نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے کیونکہ جانور میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی، جبکہ انسان اچھائی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ یعنی عمران خان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کہ فوج میرے ساتھ کھڑی ہو جائے چونکہ وہ اچھائی اور اپوزیشن برائی کی علامت ہے۔
اسی دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کامران خان نے کہا ہے کہ عمران خان کی تازہ تقریر انتہائی انتہائی خطرناک پیشرفت ہے۔ قسط وار اندرون خانہ گفتگو باہر آنے کا آغاز ہو گیا ہے۔ کامران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ پچھلے چند سالوں میں اندرون خانہ گفتگو باہر آئیں تو نہ جانے جانے کیسے کیسے انکشافات سامنے آئیں گے۔ ابھی تو صرف زبانی گفتگو ہو رہی ہے۔ لوگوں نے تو آڈیو اور ویڈیو سیریز بنائی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے الیکشن کمیشن کو آج عمران خان کی بھرپور لفظی گولہ باری کی توقع تھی، اسی لئے ان کی تقریر پر پابندی عائد کی تھی۔ لوئر دیر کی تقریر رکوانے کی الیکشن کمیشن کوشش ناکام ہوگئی۔ خان صاحب آئندہ آنے والے دنوں میں جو انکشافات کرنے والے ہیں، انہیں کون کیسے روکے گا؟ اب تو کھلی جنگ ہے
شہباز اورمولانا کی عمران کو زبان قابو میں رکھنے کی وارننگ
۔
کامران نے لکھا کہ سیاسی درجہ حرارت آسمان کو چھو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان غصے میں آگ بگولہ ہیں۔ کون نہیں جانتا جب عمران جلسہ عام میں موجودہ سیاسی کشمکش میں نیوٹرل کی تعریف مجمع کے سامنے بیان کر رہے تھے تو ان کے ذہن کون تھا کیوں تھا۔ آئندہ آنے والے دنوں خان صاحب کی تقاریر ضرور دیکھیں۔
Why did Imran Khan call Neutral an animal? Urdu News