عمران خان اپنے لاڈلے بزدار کو کیوں نہیں بچا پائیں گے؟

اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہوجانے اور عثمان بزدار کے خلاف کھلی بغاوت کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر وزیر اعلی پنجاب کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد ان کی سیاسی مشکلات میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل نے عمران خان کے ایما پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے عثمان بزدار کو ہٹانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اس حوالے سے اڑائی جانے والی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ یاد رہے کہ پنجاب کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان پارٹی سے بغاوت کرنے کے بعد جہانگیر خان ترین گروپ کا حصہ بن چکے ہیں اور انہیں وزارت اعلیٰ کا مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 40 اراکین پنجاب اسمبلی انکے ساتھ ہیں اور عثمان بزدار انہیں کسی بھی صورت وزیراعلی قبول نہیں۔ دوسری جانب وزارت اعلی کے ایک اور تگڑے امیدوار پرویز الٰہی نے بھی اب تک اپنی کوششیں ترک نہیں کیں اور انیون نے بھی وزیراعظم سے پنخاب کی وزارت اعلیٰ مانگ رکھی ہے۔ ایسے میں عمران خان کے لیے ایک گھمبیر صورتحال پیدا ہو چکی ہے کیونکہ اگر وہ پنجاب کی وزارت اعلی علیم خان کو دیتے ہیں تو قاف لیگ ناراض ہو جائے گی اور اگر وہ چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی بناتے ہیں تو ترین گروپ اپوزیشن کے ساتھ جا ملے گا۔ چنانچہ ان کے قریبی ذرائع کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے وزیراعظم نے عثمان بزدار کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اس مرتبہ جتنی بھی کوشش کر لیں وہ عثمان بزدار کو نہیں بچا پائیں گے کیونکہ ان کی پارٹی کے اندر سے بغاوت ہو چکی ہے اور وزیراعلی پنجاب کے خلاف تحریک انصاف کے اندر دو دھڑے کھل کو سامنے آگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قاف لیگ یا ترین گروپ میں سے کوئی ایک دھڑا بھی بزدار کے خلاف چلا گیا تو ان کی وزارت اعلی ختم ہو جائے گی۔ دوسری جانب وزیر اعظم کی بھرپور یقین دہانی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی حرکت میں آگئے اور اپنے صوبائی وزرا اور ممکنہ منحرف اراکین سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ممبران پنجاب اسمبلی کو بھاری ترقیاتی فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ پارٹی کے ساتھ وفادار رہیں اور اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔ اسی سلسلے میں دس مارچ کے روز وزیر اعظم لاہور پہنچ گئے اور عثمان بزدار کی حکومت بچانے کی کوششیں تیز کر دیں۔
پنجاب حکومت کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے علیم خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ چلے جانے والے کئی ناراض ممبران پنجاب اسمبلی اور صوبائی وزراء کو منا لیا ہے اور وہ اب بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بتایا جا رہا یے کہ عثمان بزدار نے 10 مارچ کو اپنے دفتر میں جن صوبائی وزرا اور قانون سازوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو پہلے پنجاب کے سابق وزیر علیم خان کی جانب سے جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات سے قبل دئیے گئے ظہرانے میں موجود تھے۔بزدار کی جانب سے منائے جانے والے وزرا اور ایم پی اے حضرات نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ظہرانے میں اس لیے شرکت کی کیونکہ علیم خان نے تب تک نہ تو اپنی پارٹی چھوڑی تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی مخالف کسی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا۔
لیکن اسی دوران عثمان بزدار کو ایک اور جھٹکا تب لگا جب ان کی اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بھی ترین گروپ کے ارکان سے ملاقات کر لی اور پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ پیغام پہنچایا کہ اگر حکمراں جماعت تقسیم ہوئی تو وہ اپنی حکومتی حمایت ختم کرنے کا فیصلہ سکتی ہے۔ 9 مارچ کو ترین گروپ کے 6 رکنی وفد نے صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال کی قیادت میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی سے ایوان میں ممکنہ تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال کیا اور اس حوالے سے رہنمائی مانگی کہ ناراض اراکین ایسی کوئی تحریک پیش کر سکتے ہیں یا نہیں۔ وفد نے بزدار حکومت کو ہٹانے کے لیے مسلم لیگ (ق) کی حمایت بھی مانگی۔
ملاقات میں چوہدری پرویز الٰہی نے کوئی یقین دہانی تو نہیں کروائی لیکن قاف لیگ کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے یہ ضرور کہہ دیا کہ اگر عمران خان کی اپنے جماعت کے اراکین ان کا ساتھ چھوڑ گئے تو پھر ان کی جماعت بھی حکومت کے ساتھ کھڑی نہیں رہ پائے گی۔
اطلاعات کے مطابق پرویز الٰہی سے ملاقات کرنے والے ترین گروپ کے زیادہ تر ارکان اسمبلی نے بھی علیم خان کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کے امکان پر ناراضی کا اظہار کیا۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے ناراض ایم پی اے خرم لغاری جو پہلے علیم خان سے ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے، اب یو ٹرن لے چکے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ مائنس بزدار کا مطالبہ مکمل ترین گروپ کا نہیں بلکہ صرف صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال کا انفرادی مؤقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں ہم عثمان بزدار کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ اسکے علاوہ علیم خان کے ظہرانے میں شامل پنجاب کے وزیر توانائی ڈاکٹر اختر ملک نے بھی یو ٹرن لے لیا ہے اور کہا ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں اور اخلاقی اور قانونی طور پر پارٹی لائن پر چلنے کے پابند ہیں۔ اسکے علاوہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پارٹی سے باغی ہونے والے صمصام بخاری اور عارف نکئی بھی دوبارہ سے عثمان بزدار کی حمایت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

عمران خان اپنا انجام قریب دیکھ کر بازاری زبان پر اتر آئے

تاہم دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ترین اور علیم گروپ مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہاتھ ملا لیتا ہے تو عثمان بزدار کی حکومت ختم ہو جائے گی کیونکہ وہ صرف دس ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے جو کہ قاف لیگ کے ہیں اور اب پرویز الہی خود بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ ذرائع کا کہنا یے کہ پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی کے سائے گہرے ہو رہے ہیں کیونکہ ترین گروپ نے مسلم لیگ ن کو تبدیلی کے لیے ابتدائی فارمولا دے دیا ہے۔ ترین گروپ نے پنجاب میں وزارت اعلی کا منصب مانگ لیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کیساتھ ساتھ سپیکر پرویز الٰہی کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تجویز دے دی ہے۔ ترین گروپ کے ابتدائی فارمولے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کی سپیکرشپ پیپلز پارٹی کو اور سینئر وزیر ن لیگ سے بنایا جائے۔

Why Imran Khan will not be able to save his beloved Bazdar?

Related Articles

Back to top button