ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کا تھرما میٹر کیوں کہلاتی ہے؟

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تھرمامیٹر سمجھی جانے والی ایم کیو ایم ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن کے لئے ہاٹ کیک کا بن گئی ہے، لہذا مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر مہاجر قیادت اپنا فیصلہ انہیں کے اشارے پر کرے گی جو ہمیشہ سے اس کو چلاتے آئے ہیں۔
ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی ایم کیو ایم کی قیادت حکومت اور اپوزیشن دونوں کو تعاون کی یقین دھانی تو کروا رہی ہے لیکن دراصل آخری فیصلہ وہی کریں گے جو اس ملک کے اصل فیصلہ ساز ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں نیوٹرل اور غیر جانب دار ہونے کی دعویدار اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی جھکاؤ کا اندازہ ایم کیو ایم، قاف لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی سیاسی فیصلہ سازی سے ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے اور حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے، لیکن حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی وفاقی وزیر اور سینیٹر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ماضی میں سیاسی اتحادوں کا حصہ بننے اور پھر داغ مفارقت دینے کے حوالے سے پارٹی کے حیران کن فیصلوں بارے اب کھل کر بات کر رہے ہیں اور تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ماضی میں اہم سیاسی۔مواقع پر اسٹیبلشمنٹ کی لائن لیکر چلتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کراچی کے علاقے بہادر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز گئے اور پارٹی رہنماؤں سے ملے۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں سائیڈز نے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ایم کیو ایم کی طرف سے مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی گئی۔ تاہم ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما عامر خان نے وضاحت کی کہ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے نہ تو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ان دے حمایت مانگی اور نہ ہی ایم کیو ایم نے انہیں کوئی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی ساری آپشنز کھلی ہیں۔
دوسری طرف ذرائع ابلاغ میں جہاں تحریک انصاف کے دیگر اتحادیوں کی وفاداری اور حکمت عملی پر بحث ہو رہی ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ایم کیو ایم تازہ سیاسی صورت حال میں کنفیوژن کا شکار ہے؟ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی یے کہ ماضی میں تحریک عدم اعتماد یا حکومت سازی میں ایم کیو ایم کی وجہ سے اس جماعت اور اتحادیوں کی سیاست کیا رُخ اختیار کرتی رہی۔ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام امین الحق نے بی بی سی سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ 1988 میں انہیں نواز شریف اور بینظیر نے حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی تو انہوں نے لاہور میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کر کے اوکے کہہ دیا۔ تاہم بعد ازاں اسلام آباد پہنچ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔
اس فیصلے کے بعد جب بے نظیر بھٹّو عزیز آباد آئیں تو ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ 51 نکات پر مشتمل شراکت اقتدار کا ایک تحریری معاہدہ کیا۔ بدقسمتی سے اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اختلافات کے نتیجے میں محض 11 ماہ بعد ہی دونوں جماعتوں کا اتحاد ختم ہو گیا۔ بقول امین الحق پھر مارچ 1989 میں آئی جے آئی سے ہمارا دوبارہ رابطہ ہوا۔ حسین حقّانی ساتھیوں کے ساتھ کراچی آئے اور پھر کئی خفیہ دورے میں نے بھی کیے۔ وی بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹّو کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی ہماری ان ہی ملاقاتوں کا نتیجہ تھا۔
امین الحق کے مطابق کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد اداروں نے ہی منظم کی تھی۔ اس زمانے میں بھی یہ سب کچھ یعنی گیٹ نمبر چار، چمک، اشارے، امپائر سب کچھ ہوتا تھا۔ تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہو گئی لیکن پھر چھ اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان نے بے نظیر کی پہلی حکومت کو بدعنوانی سندھ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دیگر الزامات کے تحت برطرف کر دیا تو قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ 24 اکتوبر 1990 کو پھر عام انتخابات کے نتیجے میں آئی جے آئی کی حکومت قائم ہوئی تو ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 15 اور صوبائی اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں۔ نئے سیاسی سیٹ اپ میں ایم کیو ایم نے نواز شریف کے ساتھ اتحاد کر لیا۔
نواز شریف وزیر اعظم اور جام صادق علی وزیر اعلیٰ سندھ بنائے گئے۔ موجودہ ایم کیو ایم سینیٹر فیصل سبزواری کے بقول اس مخلوط حکومت میں رہتے ہوئے بھی جب ہمارے خلاف 19 جون 1992 کو کراچی آپریشن کلین اپ کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نواز شریف کی حکومت سے بھی علیحدہ ہو گئے۔ نومبر 1990 سے جون 1992 تک ہم نواز شریف کے اتحادی رہے پھر ہم نے استعفیٰ دیے۔ 18 اپریل 1993 کو وزیر اعظم سے اختلافات پر صدر غلام اسحٰق خان نے 58,2b کے تحت نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی۔
اگرچہ 26 مئی 1993 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت بحال کر دی مگر 18 جولائی 1993 کو صدر اسحٰق اور وزیراعظم شریف دونوں ہی کو ’جنرل وحید کاکڑ فارمولے‘ کے تحت مستعٰفی ہونا پڑا۔ ایم کیو ایم رہنما فیصل سبزواری کے مطابق 6 اکتوبر 1993 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ فیصل سبزواری نے بتایا کہ ’بینظیر بھٹّو پھر وزیر اعظم مقرر ہوئیں جبکہ عبداللّہ شاہ وزیراعلیٰ سندھ بن گئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم مسلسل لگ بھگ چار سال اقتدار سے علیحدہ رہی۔ ایم کیو ایم مسلسل نہ صرف حزب اختلاف بلکہ عتاب میں بھی رہی۔ جیل سے وین بھر کر آتی تھی اراکین سندھ اسمبلی کی۔ فاروق ستّار، وسیم اختر، رضا ہارون سب اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے جیل سے لائے جاتے تھے۔ چونکہ ان دنوں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی لہٰذا پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ اور بینظیر کے قریبی ساتھی صدر فاروق احمد خان لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹّو کی حکومت کو لاقانونیت اور بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کر دیا۔ قومی و صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔
تین فروری1997 کے عام انتخابات میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔ لیاقت جتوئی ایم کیو ایم کی مدد سے سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ 17 اکتوبر 1998 کو ہدف بنا کر کیے جانے والے حملے میں سندھ کے سابق گورنر حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔ فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ ‘وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی ہی اتحادی جماعت یعنی ایم کیو ایم کے خلاف پریس کانفرنس کر کے حکیم سعید قتل کا الزام ایم کیو ایم پر ہی عائد کر دیا تو ایم کیو ایم ایک بار پھر حکومت سے علیحدہ ہو گئی لیکن 12 اکتوبر 1999 کو بالآخر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
10 اکتوبر 2002 میں پھر سے انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 19 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، میر ظفر اللّہ خان جمالی وزیر اعظم مقرر ہوئے اور صوبے میں علی محمد مہر اور پھر ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ بنے۔ فیصل سبزواری کے مطابق ‘ایم کیو ایم وفاق اور صوبے میں ایک بار پھر حکومت میں شریک ہوئی اور دسمبر 2007 تک اس اقتدار میں شریک رہی۔ 18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی کُل 42 نشستیں حاصل کیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے مگر سیاست نے ایسی کروٹ لی کہ اس بار مسلم لیگ نواز بھی اُن کی شریک اقتدار رہی۔
اس اکثریتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں مدد و حمایت کی ضرورت نہیں تھی۔ صوبے میں بھی پیپلز پارٹی نے بھی بغیر کسی مدد و حمایت کے کامیابی سے اپنی حکومت قائم کرلی۔ فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم نے پھر بھی وفاق و مرکز کی حکومتوں میں شرکت اختیار کر لی۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق تب تک ایم کیو ایم نے اقتدار کا مزہ چکھ لیا ہے اور مشکل تھا کہ اب ایم کیو ایم بنا اقتدار سیاسی میدان میں رہے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ہیئت و ساخت بھی تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
سینیٹر فیصل سبزواری نے بھی خندہ پیشانی سے تسلیم کیا کہ یہی وہ دور تھا جب ایم کیو ایم کی شبیہ ایسی بن گئی کہ وہ اقتدار کے بغیر نہ چل سکنے والی جماعت بن کر رہ گئی تھی۔ وجہ شاید یہ تھی کہ یہ وہ دور تھا جو سوشل میڈیا کی نظروں کی سامنے تھا۔ آج بھی بعض حلقے جملے بازی کرتے ہیں کہ اس وقت ہم نے اقتدار کا آنا جانا شروع کر دیا۔ زرداری صاحب کی حکومت کا وہ دور ہمارے لیے بھی کوئی بہت باعث فخر نہیں تھا بلکہ بطور سیاسی کارکن ہمارے لیے بھی بار بار حکومت میں آنا جانا شرمندگی کا باعث تھا۔ ایسے میں صرف تین مرتبہ ہی حکومت سے نکلنے کے وہ مواقع آئے جن کو سنجیدگی سے نکلنا کہیں گے۔‘ 11 مئی 2013 میں انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی کل 25 اور سندھ اسمبلی کی 51 نشستیں حاصل کیں۔
سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ فاتح ’پیپلز پارٹی نے پھر ہمیں دعوت دی کہ ہم صوبائی حکومت میں شامل ہو جائیں مگر ایم کیو ایم کی صفوں میں حکومت میں شمولیت پر بہت زیادہ ناراضی تھی تو ایم کیو ایم نے کارکنوں کا ریفرنڈم منعقد کروایا کہ ہمیں حکومت میں جانا بھی چاہیے یا نہیں۔ کارکنوں کی بڑی تعداد کی رائے یہ تھی کہ ہمیں حکومت میں نہیں جانا چاہیے تو ہم نہیں گئے لیکن مئی 2014 میں اچانک پھر ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں چلے گئے لیکن توقع کے عین مطابق محض ساڑھے چار ماہ ہی میں ہم اس حکومت سے بھی نکل آئے۔ فیصل سبزواری تسلیم کرتے ہیں کہ 2002 سے تو میں دیکھ رہا ہوں کہ حکومت میں جانے یا نہ جانے کے فیصلے اوپر سے ہی ہوتے تھے بلکہ 2002 میں بڑا لطیفہ تو یہ ہوا کہ ڈاکٹر فاروق ستّار نے نائن زیرو پر پریس کانفرنس کر کے عندیہ دیا کہ ایم کیو ایم وزیراعظم کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی (پیٹریاٹ) کے امیدوار امین فہیم کی حمایت کرے گی لیکن دو دن بعد ہی ایم کیو ایم نے میر ظفر اللّہ خان جمالی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اس سوال پر کیا فیصلے صرف الطاف حسین کی سطح پر ہوتے تھے؟ فیصل سبزواری نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ایک ماحول بن جاتا تھا۔ الطاف حسین کا موڈ دیکھ کر دیگر پارٹی قائدین بھی ہاں میں ہاں ملانے لگتے تھے۔ فیصل سبزواری نے بطور تجزیہ نگار کہا کہ ’پاکستان میں طاقتور حلقے سیاسی حکومت بنانے، گرانے، سجانے یا بگاڑنے میں ملوّث رہے ہیں، اس سے تو خود اسٹیبلشمنٹ کبھی انکاری نہیں رہی۔’ایک ماحول تو بنا دیا جاتا ہے۔
ماضی میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوتی تھی تو بھی چھانگا مانگا ہوا کہ نہیں، مڈ نائیٹ جیکالز ہوا کہ نہیں، پی ایم ایل کیو، پیٹریاٹ سب کچھ ہوا۔حکومت گرانے کا کام 58,2b کے زمانے میں ہوتا اب 58,2b تو رہی نہیں تو اب گرانے کی بجائے حکومت سازی میں ہوتا ہے سب کچھ۔ فیصل سبزواری نے کہا ’یہ تو بڑے اوپن سیکرٹس یعنی کھلے راز ہیں ہماری تاریخ کے ۔۔!!!‘
Why is it called Thermometer of MQM Establishment? Urdu