ووٹ ڈالنے سے پہلے آرٹیکل 63 اے کا اطلاق ممکن کیوں نہیں؟

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے دوران وزیراعظم کے خلاف حکومتی جماعت کے اراکین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے آرٹیکل 63 اے کے استعمال پر متضاد قانونی آراء سامنے آرہی ہیں، لیکن بظاہر یوں لگتا ہے کہ حکومت کا یہ ہتھیار موثر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ اس کی آئینی حیثیت مشکوک ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہا کہ فلور کراسنگ کرنے والوں کیخلاف موقع پر آئین کی شِق 63 اے کے تحت کارروائی کی جائے گی اور یہ سپیکر کا اختیار ہے کہ وہ منحرف ہونے والے رکن اسمبلی کا ووٹ گنے یا نہ گنے۔ فواد کے اس موقف کے بعد تین اہم آئینی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں، پہلا یہ کہ کیا کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا کوئی پارٹی اپنے کسی رکن کو پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے روک سکتی ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا سپیکر کسی ووٹ کو گننے سے انکار کر سکتا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فلور کراسنگ کا مطلب کیا ہے؟ اور سیاسی جماعتیں اپنے ارکان کے کس عمل کو فلور کراسنگ مانتی ہیں؟ سادہ الفاظ میں کسی منتخب رکن کا اپنی جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت کے حق میں ووٹ دینا فلور کراسنگ تصور ہوتا ہے۔
پاکستان کی آئینی تاریخ پر بات کرتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی لیگل ایڈوائزر ریما عمر نے بتایا کہ 1973 کے آئین میں انحراف کرنے والے اراکین کے بارے میں شروع میں کوئی واضح شِق نہیں تھی۔ 1997 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران چودھویں ترمیم کے تحت سیاسی جماعت سے انحراف کرنے کے حوالے سے یہ شِق یعنی 63 اے آئین کا حصہ بنائی گئی۔
اس شِق کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن کے خلاف پارٹی کے خلاف ووٹ کرنے پر ڈسپلنری ایکشن ہوسکتا ہے۔ ریما عمر نے بتایا کہ اس شِق کو آئین کا حصہ بنانے کا مقصد اس بات کا اطمینان کرنا تھا کہ حکومت کے کام کرنے کے طریقے یا کارروائی میں کوئی خلل نہ آسکے۔ ‘اس دوران بھی اس شِق کے معنی خاصے جامع تھے۔ یعنی آپ سیاسی جماعت کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتے یا بول سکتے تھے۔ نواز شریف کے دور میں انڈیا اور پاکستان کے اس قانون میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔’ چودھویں ترمیم کے تحت پارٹی کے سربراہ کے پاس یہ طاقت تھی کہ وہ کسی رکن کو انحراف کرنے کے الزام پر برطرف کردے۔
لیکن سابق صدر اور فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں اس شِق کا دائرہ مزید تنگ کیا گیا۔ اس دور میں اس شِق کے تحت سترہویں ترمیم کے تحت یہ طے کیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ، وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے انتخابات، اور آئینی ترامیم کے دوران اراکینِ اسمبلی کو پارٹی کے جاری کردہ احکامات کے تحت ہی ووٹ ڈالنا ہوگا۔ اب فواد چوہدری نے دھمکی دی ہے کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی کو لگے کہ کسی رکن نے پارٹی چھوڑ دی ہے تو وہ اس رکن کا ووٹ نہیں گنیں گے۔ لیکن سینیئر قانون دان اور پی پی پی کے رہنما اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ ’یہ تو آئین کے ساتھ مذاق ہے کہ سپیکر یا کوئی بھی کسی ممبر کے ووٹ کو کینسل کر سکے کہ جی اس کا ووٹ ہی نہیں ہو گا۔‘ انھوں نے کہا ’یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، ووٹ تو اس کا پڑے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جو رکن اپنی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دے گا وہ بھی شمار ہو گا اور جس طرف اس کا رجحان ہوگا اسی طرف سمجھا جائے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ اگر پارٹی کے خلاف بھی ہے ’تو اس کی گنتی ہو گی۔‘ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سپیکر کا یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی ووٹ کو ڈالے جانے کے بعد شمار نہ کریں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جو لوگ یہ مشورہ دے رہے ہیں وہ وزیر اعظم کے دشمن ہیں۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ماورائے آئین بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 63 اے جب ایک جرم ہو گا، اگر آپ اس کو جرم کہتے ہیں، تو تب وہ عمل میں آئے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی ممبر ووٹ پارٹی کے وہپ کے خلاف دے گا تو اس کے بعد 63 اے کے اندر ایک پورا طریقہ کار دیا ہوا ہے۔‘ رضا ربانی نے کہا کہ ’لہذا سپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی ممبر کو اپنا ووٹ استعمال کرنے سے روکے۔ اس ووٹ کو استعمال کرنے کے بعد کیا نتائج ہوں گے۔ وہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن ووٹ کاسٹ ہو گا۔‘
اگلا اہم سوال یہ ہے کہ کیا تحریکِ انصاف اپنے اراکین کو عدم اعتماد کا ووٹ ڈالنے سے روک سکتی ہے؟ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے مطابق اس کا سادہ سا جواب ہے کہ پارٹی ایسا نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ ‘پی ٹی آئی اپنے اراکین کو نہیں روک سکتی۔ اور اگر فرض کریں کہ روک لیں اور نا اہل کرنے کا ریفرنس بھیج بھی دیں تو پی ٹی آئی کو اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے حق میں اعتماد کے لیے مزید ووٹ درکار ہونگے۔’ تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نااہل کیے گئے ارکان کو نکالنے سے وزیرِ اعظم کے حق میں اعتماد کے لیے ووٹ کم پڑسکتے ہیں؟
عرفان قادر نے کہا کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ ‘اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے۔ اگر وہ اس اکثریت میں سے بیشتر کو نکال دیتی ہے، یا ان کا ووٹ نہیں گنتی، تو پھر اعتماد بحال کرنے کے لیے مزید ووٹ کہاں سے لائی گی؟’
یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کو 172 ووٹ چاہیئیں۔ جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس تمام حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اراکین، پی ٹی آئی کے باغی گروپ اور دیگر اتحادیوں کو ملا کر 200 کے قریب اراکین بنتے ہیں۔ اس وقت یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ عدم اعتماد تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ پیپلز پارٹی کے رکن اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ ‘آئینی اور قانونی طریقہ کار پر اگر عمل کیا جائے تو معاملہ کافی سیدھا سادہ سا ہے۔ لیکن اس وقت وزیرِ اعظم غصے میں لگ رہے ہیں اور عین ممکن ہیں کہ وہ خود کو بحال کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے۔’
اگلا اہم سوال یہ ہے کہ کسی رکن اسمبلی کو نااہل کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ریما عمر کے مطابق آئین کے مطابق یہ طریقہ کار رکنِ قومی اسمبلی کے ووٹ ڈالنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ اور ماہرین کے مطابق یہ مرحلہ خاصا طویل ہے جس کے مکمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ 30 دن کے اندر رکن فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جاسکتے ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ میں 60 سے 90 دن مزید لگ سکتے ہیں۔ ریما عمر کے مطابق پاکستان کے آئین میں سپیکر اسمبلی کی حیثیت ’پوسٹ آفس سے بھی کم ہے۔‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کی شِق 63 اے میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی ممبر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اپنی جماعت کے خلاف ان خاص حالات میں ووٹ کرتا ہے یا ووٹ ڈالنے سے منع کرتا ہے تو جماعت کا سربراہ سپیکر اسمبلی کو رکن کے منحرف ہونے کا ریفرنس دیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کسی رکن کو بغیر سنے ریفرنس نہیں دے سکتے۔ جس کے لیے پارٹی سربراہ رکن کو پہلے شو کاز نوٹس دیتے ہیں، رکن پارٹی سربراہ کو جواب دیتے ہیں کہ انھوں نے کیوں یہ فیصلہ کیا۔ اس کے بعد پارٹی سربراہ ڈیکلیریشن یا ریفرنس سپیکر کو بھیجتے ہیں۔ جس کے بعد سپیکر رکن کے خلاف اس ڈیکلیریشن یا ریفرنس کو الیکشن کمیشن میں بھیجتے ہیں۔
حکومت کا نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کو بند کرنے کا فیصلہ
ریما عمر نے کہا کہ ‘اگر کسی وجہ سے سپیکر الیکشن کمیشن کو ریفرنس نہیں بھیجتے تو عمومی طور پر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ اگلے دو دن میں وہ اس ریفرنس کو ای سی پی کو بھیج دیں گے۔’ الیکشن کمیشن کے پاس یہ ریفرنس پہنچنے پر وہ رکنِ قومی اسمبلی کو سنتے ہیں جس کے بعد رکن کی نا اہلی کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی رکنِ قومی اسمبلی کے پاس یہ حق ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپنے خلاف درخواست یا تحریری ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال پی ٹی آئی کی سابق رکن عائشہ گلالئی کی ہے۔ عائشہ گلالئی اور عمران خان کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن میں ریفرنس جمع کرانے سے پہلے اپنے پارٹی رکن کو سننا ضروری ہے۔ لہذا قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے اپنے ممبران اسمبلی کو ساتھ ملانا چاہیے بجائے کہ وہ قانونی موشگافیوں کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرے۔
Why is it not possible to apply Article 63A before voting?