جسٹس فائز عیسیٰ کو اگلا چیف جسٹس بننے کا یقین کیوں نہیں؟

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت سمجھے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ سینئر ترین جج ہونے کے باوجود مستقبل میں اپنے چیف جسٹس بننے یا نہ بننے کے امکان پر اس لئے تبصرہ نہیں کرسکتے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔

لندن کی ایک یونیورسٹی میں عاصمہ جہانگیر سیمینار کے دوران ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ پاکستان کے اگلے چیف جسٹس بننے کے حوالے سے پر امید ہے، جواب میں فائز عیسی نے کہا کہ جب مجھے یہ نہیں پتا کہ میں ایک گھنٹے بعد زندہ بھی رہوں گا یا نہیں تو پھر مستقبل کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کیسے کی جا سکتی ہے۔ خیال رہے کہ قاضی فائزعیسی اس وقت سنیارٹی لسٹ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں اور موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سال 2023 میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اگلے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ تاہم لندن میں ان سے کیے گئے سوال کا پس منظر ان کے خلاف طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کی جانے والی سازشیں ہیں جن کا بنیادی مقصد انہیں اگلا چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔

خیال رہے کہ دو برس پہلے وزیراعظم عمران خان کے ایماء پر صدر عارف علوی نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بیرون ملک اپنی اہلیہ کی جائیداد ڈیکلیئر نہ کرنے کے الزام پر نااہلی کا ریفرنس بھی دائر کیا تھا جسے لمبی عدالتی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔

لندن میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جبر کے نظام کا خاتمہ ہی پاکستان کے روشن مستقبل کا ضامن ہے، انہوں نے لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی میں ’پاکستانی عدلیہ اور اس کا کردار‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک لیکچر میں کہا ضروری ہے کہ پاکستان میں عوام کی رائے اور خواہشات کا احترام شروع کیا جائے، انکا کہنا تھا کہ پاکستانی جمہوریت پر  اعتراض کرنے والے اوورسیز  پاکستانی مغرب پر اعتراض کیوں نہیں کرتے؟

جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف پوچھے گئے سوال پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام ہمیشہ آئین کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں جمہوریت اور آئینی بالادستی کی پوری سمجھ بوجھ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا فوجی آمریت کے ادوار میں پاکستان میں کرپشن کم ہوئی؟ قاضی عیسی کا کہنا تھا کہ ملک زمین سے نہیں بلکہ لوگوں سے بنتا ہے اس لیے ملک کو مضبوط کرنا ہے تو تمام صوبوں کے عوام کو یکساں بنیادوں پر ان کے حقوق دئیے جانے چاہیں۔

قاضی صاحب نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان سیاستدانوں کی کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا تھا یا ایک جرنیل کے اقتدار کی خواہش نے اسے دولخت کیا؟ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ایک جرنیل نے عوام کی مرضی کو قبول نہیں کیا اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔

حسین حقانی بارے بنائے گے سپریم کورٹ کے میمو گیٹ کمیشن پر سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ انہوں نے حسین حقانی کے خلاف فیصلہ آئین کے مطابق دیا۔ ہم نے حسین حقانی کو بار بار کہا گیا پاکستان واپس آئیں اور پیش ہوں، لیکن وہ نہیں آئے۔ لیکن فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے گفتگو کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ جب میں بلوچستان کا چیف جسٹس تھا تو اس بات کو یقینی بنایا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سنے جائیں۔ فائز عیسٰی نے کہا کہ انکی پوری کوشش ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ہو۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے، اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ایک ہی جھٹکے میں ہمارا سیاسی نظام بکھر بھی سکتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے طلبہ، وکلا، تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے بھرپور ہجوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں عاصمہ جہانگیر جیسی خواتین کی عظمت کو تسلیم کرنا چاہیے، وہ ایک تبدیلی لانے والی خاتون تھیں، جج ان سے خوفزدہ تھے اور یہ بات میں ان کی ستائش میں کہہ رہا ہوں۔

خواتین کائنات کوزندہ، رنگین اورمتاثر کن بناتی ہیں

انہوں نے کہا کہ حالیہ عالمی واقعات نے آمریت کے حامیوں کے جوش و خروش کو کم کر دیا ہے۔ انہوں نے صنفی مساوات کے حوالے سے پاکستان کے ابتر ریکارڈ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے یہ ثابت کر کے ایک مثال قائم کی کہ مطلق العنان حکمرانی ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے انتخابی نظام کی طرح عدلیہ بھی سب کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ذریعہ ہے، میں صرف ایک ایسے مستقبل کا تصور چاہوں گا جس میں ظلم و ستم اور آمریت کا خاتمہ ہو۔

Why is Justice Faiz not sure about becoming the next CJ?

Related Articles

Back to top button