مئیر ڈی آئی خان کی سیٹ 3 جماعتوں کے لئے انا کا مسئلہ کیوں؟

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل کے میئر کا الیکشن تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اس قدر اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ بظاہر تو یہ ایک پسماندہ ضلع کی تحصیل کے میئر کا انتخاب ہے لیکن یہاں سیاسی ہلچل اور گہما گہمی قومی اسمبلی کی کسی نشست کے انتخاب سے کم نہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ حلقہ ایک طرح سے ان کی انا کا مسئلہ بن چکا ہے اس لیے مقامی سطح پر کہا جا رہا ہے کہ تمام امیدوار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

مقامی صحافی بتاتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان کا حلقہ جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا اپنا حلقہ ہے لیکن پہلے مرحلے کے انتخابات میں جمیعت نے اس حلقے سے ایک بھی تحصیل میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی اس لیے اب ان کی کوشش ہے کہ اس تحصیل کی نشست کو جیتنا ضروری ہے۔ دوسری جانب یہ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کا بھی اپنا حلقہ ہے اور وہ خود یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں اور ان کے بھائی فیصل امین گنڈا پور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے تیسرے بھائی انتخابی میدان میں ہیں۔

پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی بھی اس حلقے سے ایک مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ 2018 کے انتخاب میں ان کے بھائی احمد کریم کنڈی ڈیرہ اسماعیل خان سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

جے یو آئی کے امیدوار ایک کاروباری شخصیت ہیں اور پہلی مرتبہ سیاسی میدان میں سامنے آئے ہیں جن کا مقابلہ مضبوط امیدواروں سے ہے۔ واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے اور اس کے لیے پولنگ 31 مارچ کو ہو گی لیکن اس سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ اہم معرکہ 13 فروری کو ہونے جا رہا ہے جو ایک طرح سے آئندہ الیکشن کے لیے نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں 19 دسمبر 2021 کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پولنگ ہوئی تھی لیکن جہاں مختلف وجوہات کے باعث انتحابی عمل روک دیا گیا تھا یا شکایات کی وجہ سے وہاں نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا، وہاں 13 فروری کو دوبارہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل میئر کی نشست پر پہلے مرحلے میں پولنگ نہیں ہو سکی تھی جس وجہ سے وہاں نئے سرے سے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پہلے مرحلے میں خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل میئر کا انتخاب اس وقت ملتوی ہو گیا تھا جب عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار عمر خطاب شیرانی کو الیکشن سے ایک روز پہلے قتل کر دیا گیا تھا۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے الیکشن کے لیے پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام (ف) ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اور ان جماعتوں کے مرکزی قائدین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار بھی متحرک ہیں اور وہ اس انتخابی نتیجے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

تحصیل میئر کے انتخاب کے لیے امیدواروں میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی عمر امین گنڈہ پور اور جمیعت علما اسلام کے مقامی رہنما ایک کاروباری شخصیت کفیل نظامی شامل ہیں۔ سیاسی گہما گہمی اور ہل چل کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کو ضلع بدر کیا تھا۔

چانڈکا یونیورسٹی میں عزتیں لوٹنے والا درندہ کون ہے؟

ان کے بھائی اور تحصیل میئر کے امیداوار عمر امین کو نا اہل قرار دیا گیا تھا لیکن عدالت کے حکم پر الیکشن کمیشن نے علی امین کو مشروط اجازت دی اور ان کے بھائی کی نااہلی کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کے بھائی ضیا الرحمان کے سرکاری ملازم ہونے کے باوجود انتخابی مہم میں حصہ لینے پر بھی ایکشن لیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ی ٹی آئی ان انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور اس وجہ سے جماعت کی قیادت فکر مند نظر آتی ہے۔ یہ نتائج جمیعت علما اسلام کے لیے انتہائی حوصلہ افزا رہے ہیں اور اب جے یو آئی نے ان انتخابات کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی تیاریوں اور موزوں اُمیدواروں کے انتخاب پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ پنجاب میں مقبول ترین جماعت مسلم لیگ ن کے پی میں صرف ہری پور تک ہی محدود ہے۔

ڈیرہ اسماعیل سے مقامی صحافی سعید اللہ مروت نے بتایا کہ اس وقت دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان امیدواروں کے ساتھ اتحاد میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہے اس کے علاوہ اس علاقے میں مضبوط سیاسی خاندان میاں خیل برادران نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔

یہاں پاکستان مسلم لیگ ن جمیعت علما اسلام کی حمایت کر رہی ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ برس جنرل الیکشن کے لیے یہ انتخاب ایک راہ متعین کر سکے گا اور ایک طرح سے ان انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنی عوامی قوت کا بھرپور مظاہرہ کر سکیں گی۔ ان کے مطابق اگرچہ ابتدا میں ان انتخابات کی طرف سیاسی جماعتوں کی یا تو توجہ کم تھی اور یا وہ تیار نہیں تھیں لیکن اب سیاسی جماعتیں زیادہ متحرک نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات سے ان سیاسی جماعتوں کے مستقبل کی راہ کا تعین ہو سکے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کے بعد سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے مختلف شہروں کے دورے کیے تھے اور ناراض کارکنوں کو منانے کے علاوہ جماعت کے امیدواروں کی حمایت کے لیے کہا تھا۔ کچھ علاقوں میں پرویز خٹک کو سخت رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ پہلے مرحلے کے نتائج کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اکثر حلقوں میں پی ٹی آئی کے دو یا تین امیدوار تھے جن میں ایک ٹکٹ ہولڈر اور باقی آزاد حیثیت سے انتخابات میں شامل تھے جس وجہ سے جماعت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی۔

Related Articles

Back to top button