عمران مخالف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی کیوں ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف مجوزہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اس لیے یقینی ہے کہ ایک طرف جہانگیر ترین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے کے لیے موقع کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آدھی سے زیادہ تحریک انصاف کے ایم این ایز چھلانگ لگانے کو تیار ہیں۔

دوسری جانب خطرناک ہونے کی دھمکیاں دینے والے عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ دھمکیوں اور روٹھ جانے کی پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔چنانچہ انہوں نے معافیاں مانگنی شروع کردیں۔ لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ بدلتی ہوئی سیاسی ہواؤں کا ادراک ہونے کے بعد عمران نے انٹیلی جنس بیورو والوں کا جینا حرام کردیا ہے اور ان لوگوں کی بھی سخت نگرانی کروائی جارہی ہے جن سے وہ خود معافیاں مانگ رہے ہیں۔کپتان نے دم درود اور جھاڑ پھونک کا سلسلہ بھی بڑھا دیا ہے۔

بقول صافی سوال یہ ہے کہ اس گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں ان کی خاطر میڈیا کو کسی اور جگہ سے مثبت رپورٹنگ کرنے کی ہدایات ملتی تھیں لیکن اب میڈیا ان کے میڈیا منیجروں کو خود مینج کرنا پڑرہا ہے۔

پہلے ان کے لیے الیکشن کمیشن کسی اور جگہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا لیکن اب یہ ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آگئی ہے۔ پہلے ان کے لیے عدلیہ پر دبائو کہیں اور سے ڈالا جاتا تھا لیکن اب انہیں عدلیہ سے خود نمٹنا پڑرہا ہے۔ اسی طرح وہ شہباز شریف کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ لوگ اب انہیں گرفتار کروانے میں گزشتہ برسوں کی طرح اپنا حصہ ڈالنے کو تیار نہیں۔ کپتان جہانگیر ترین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں.

لیکن ان کا جہاز کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف پرواز کرتا پھررہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جو لوگ یہ کام کیا کرتے تھے ان کو بحیثیت ادارہ اب یہ احساس ہوگیا ہے کہ اس نظام کو لانے اور چلانے کے لیے جو کچھ کیا گیا، اس کی وجہ سے اس کا وقار مجروح ہوا اور اگر اِس سلسلے کو اسی شدت کے ساتھ جاری رکھا جاتا ہے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہو جائے گا۔ اس لیے وہ مزید فریق اور سرپرست نظر نہیں آنا چاہتا۔

تاہم سلیم صافی کے بقول اس ادارے نے نہ تو عمران خان کو رُخصت کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئی اسکرپٹ دیا ہے۔  وہ عمران کو یہ یقین دلارہا ہے کہ ان کی رخصتی کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں اور اپوزیشن کو یہ باور کرارہا ہے کہ وہ غیرجانبدار اور اپنے آئینی رول تک محدود ہوگیا ہے، لیکن عمران کو چونکہ ماضی جیسی سرپرستی نہیں مل رہی اس لیے وہ شک کررہا ہے کہ مجھے رخصت کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب چونکہ اپوزیشن کو باقاعدہ اسکرپٹ نہیں مل رہا، اس لیے وہ بھی شک کررہی ہے کہ ادارے نے بدستور عمران کے سر پردستِ شفقت رکھا ہوا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ فضا صاف نہیں ہورہی۔ ہر طرف بداعتمادی ہے۔ ہر فریق اپنے اپنے اندازے لگارہا ہے اور ان اندازوں کے مطابق قدم اٹھارہا ہے۔ ایک دن ایسا کچھ ہوجاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ حکومت آج گئی کہ کل گئی اور دوسرے دن ایسا کچھ ہوجاتا ہے کہ جس سے عمران خان کی رخصتی کے خواہشمندوں کی آرزوئوں پر پانی پھر جاتا ہے۔

فواد چودھری، فردوس عاشق نے جج کی ہرزہ سرائی پر معافی مانگ لی

چند روز قبل تک شہباز شریف پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کی جارہی تھیں، جو قربت کی بجائے دوری کا باعث بن رہی تھیں۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو اب اچانک ایک ساتھ شہباز شریف کے در پر حاضر ہوئے اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تجویز پیش کی جس سے دوبارہ ایک ہلچل پیدا ہوئی۔

نون لیگ نے ان کی تجویز اتنی سنجیدہ لے لی کہ اگلے ہی روز زوم کے ذریعے مشاورت کرلی اور حسبِ روایت اختیار نواز شریف کودے دیا۔ دوسری طرف زرداری صاحب چوہدری شجاعت کے پاس پہنچ گئے جبکہ عمران نے اس چوہدری پرویز الٰہی کو اپنی طرف مدعو کر لیا جنہیں وہ کسی زمانے میں پنجاب کا سب سے بڑا چور پکارتے تھے۔ حکومت کے دیگر اتحادیوں کے تیور بھی بدلنے لگے اور ایم کیوایم نے بھی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقاتوں کا آغاز کردیا۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ جہاں تک اپنی خواہش کا تعلق ہے تو میرے نزدیک عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع دینا چاہیے کیونکہ اب تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں۔ معیشت، سفارت اور معاشرت کے حوالوں سے جو تباہی ہونی تھی وہ ہوچکی۔ سونامی سرکار کے ذریعے ریاستی اداروں کو جتنا تباہ کیا جانا تھا، وہ تباہ ہوچکے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب کچھ کرنے کا وقت تھا تو اپوزیشن جماعتوں نے کچھ نہیں کیا اور اب اچانک انہیں جلد از جلد رُخصت کرنے کے لیے بے تاب ہوگئی ہیں۔ اپوزیشن اگر واقعی سنجیدہ ہے تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بڑی آسانی سے کامیاب ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے زرداری اور نواز شریف کو اعتماد کی فضا پیدا کرنی ہوگی جو وہ ابھی تک پیدا نہیں کرسکے۔

اسی طرح، میاں نوازشریف کو شہباز شریف پر مکمل اعتماد کرنا ہوگا جو وہ نہیں کررہے۔آصف زرداری کا ایجنڈا یہ ہے کہ اس کے بعد اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں جبکہ دوسری طرف نواز شریف چاہتے ہیں کہ عدم اعتماد کے بعد فوری انتخابات ہوں۔

شہباز شریف اگر متبادل وزیراعظم بنتے ہیں تو اس صورت میں بھی نواز شریف نہیں چاہتے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ زرداری اس معاملے میں پھر بھی واضح ہیں کیونکہ وہ اقتدار ملنے کی صورت میں ہر فریق کو ہر طرح کی گارنٹی دینے کو تیار ہیں لیکن سب سے زیادہ کنفیوژن نوازشریف کے ہاں پائی جاتی ہے۔ وہ بیک وقت دو کشتیوں پر سواری چاہتے ہیں۔

بقول سلیم صافی، میاں صاحب ڈیل توچاہتے ہیں لیکن ڈیل کرتےنہیں۔ پاکستان کی سیاست اور اپنی جماعت کی سیاست اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہاں آ کر جیل جانے کو تیار نہیں۔ وہ شہباز شریف کو صدر بنا رکھا ہے لیکن انہیں فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے نہیں۔ انہوں نے اپنے واپس نہ آنے کے لیے ابھی تک بیماری کو جواز بنا رکھا ہے لیکن علاج کراتے ہیں اور نہ بیماروں کی طرح آرام سے گھر بیٹھتے ہیں۔

حالانکہ اگر وہ بیک وقت دو کشتیوں پر سواری ختم کرکے شہباز شریف کو مکمل طور پر بااختیار بنادیں اور پھر وہ آصف زرداری کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے کسی کلیے پر متفق ہوجائیں تو عدم اعتماد کی تحریک کو کامیابی سے کوئی روک نہیں سکے گا۔  وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایک طرف جہانگیر ترین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے کے لیے موقع کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آدھی سے زیادہ تحریک انصاف کے ایم این ایز چھلانگ لگانے کو تیار ہیں۔

Related Articles

Back to top button