کیا گجرات کے چوہدری وزارت اعلیٰ حاصل کر پائیں گے؟

اپوزیشن اتحاد وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے چند نشستوں کی حامل جماعت مسلم ق کی حمایت پر تکیہ کئے ہوئے ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نواز اس جماعت نے ہمیشہ سے حکومتوں کی تشکیل میں ایک مؤثر پریشر گروپ کا کردار نبھایا ہے، یہی وجہ کہ عمران خان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور نواز شریف بھی شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود ق لیگ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تھرما میٹر سمجھے جانے والے گجرات کے سیاسی جادوگر چوہدری برادران ہمیشہ سے اپوزیشن کی بجائے اقتدار کی سیاست کرتے ہیں اور فیصلے اصولوں کی بنیاد پر کرنے کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے کرتے ہیں۔

موجودہ سیاسی منظرنامے میں بھی اپوزیشن کی کپتان مخالف تحریک عدم اعتماد کے بعد شروع ہونے والی سیاسی سرگرمیوں میں حکومتی اتحادی مسلم لیگ قاف اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز و محور بنی ہوئی ہے۔ مشرف دور میں مسلم لیگ نواز سے علیہدہ ہوکر تشکیل پانے اور مسلم لیگ قائد اعظم کے نام سے سیاست کرنے والی ق لیگ گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب کے چوہدریوں کی شناخت ہے۔ حالیہ سیاسی ہلچل میں بظاہر سیاسی رہنما چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کی غرض سے انکی رہائش گاہ جا رہے ہیں لیکن خود ق لیگ کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر پریس ریلیزوں میں ان ملاقاتوں کے سیاسی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بات ’باہمی دلچسپی کے امور‘ پر تبادلہ خیال پر ختم ہوتی ہے۔

حال ہی میں سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے آصف زرداری نے ظہور الٰہی پیلیس جا کر ان ’نئے سیاسی‘ رابطوں کی داغ بیل ڈالی۔ زرداری اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ عدم اعتماد کا ’فارمولہ‘ ڈسکس کرکے ہی چوہدری برادران سے ملاقات کرنے گے۔ بس پھر کیا تھا ظہور پیلیس نئے سیاسی گٹھ جوڑ کا مرکز دکھائی دینے لگا۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف خود چل کر چوہدری برادران سے ملنے 14 برس بعد ان کے گھر پہنچے تو مولانا فضل الرحمن بھی ایک الگ ملاقات کے لیے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ سے ملنے پہنچ گے۔

ایک اور حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بھی اسی دوران چوہدری برادران سے ملاقات کی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی ظہور پیلیس پہنچے۔ جب یہ ملاقاتیں عروج پر تھیں تو وزیراعظم دورہ چین کے بعد دورہ روس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ عمران خان نے اپنی تقریروں میں اپوزیشن کی چوہدری برادران سے ملاقاتوں پر تنقید کی اور اسے اپوزیشن کی کمزوری قرار دیا لیکن پھر وہ انہی ملاقاتوں سے گھبرا کر خود بھی یکم مارچ کو چودھریوں کے گھر ماتھا ٹیکنے پہنچ گئے۔ اس ملاقات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ہی اپنی اگلی سیاسی چالوں میں گجرات کے چوہدریوں کا اہم ترین کردار دیکھ رہے ہیں۔

حالیہ دنوں مختلف سیاسی قائدین کی چوہدری برادران سے ملاقاتیں محض مہمان نوازی کی بجائے آئندہ سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل کے تناظر میں دیکھی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ ملاقاتیں خالصتا سیاسی نوعیت کی رہی ہیں اور چوہدریوں نے کھل کر پنجاب کی وزارت اعلی مانگی ہے۔ چوہدریوں کا مطالبہ ہے کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو پنجاب میں بزدار حکومت کو بھی ہٹایا جائے گا، اور بقیہ مدت تک پنجاب کے وزیراعلی پرویز الہی ہوں گے۔

تاہم اس فرمائش کو نواز شریف نے ابھی تک قبول نہیں کیا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں چوہدری ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے ہوئے وزارت اعلی کی آفر عمران خان کی جانب سے قبول نہ کر لیں۔ اسی لیے اپوزیشن اور چوہدریوں کے مابین سیاسی ڈیڈ لاک کی سی صورت حال ہے اور چوہدریوں کی عمران سے ملاقات کے بعد اب اپوزیشن حلقوں میں ان سے ہٹ کر دیگر آپشنز پر بھی غور ہو رہا ہے۔ پاکستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں سبھی سیاسی قائدین چوہدریوں کے در پر حاضری دے رہے ہیں جن میں وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں حالانکہ تاہم عمران خان چند سال قبل جب اپوزیشن میں تھے تو ایک جلسے میں انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو ’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘ قرار دیا تھا۔

اس وقت شاید انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہو کہ جلد ایک وقت آئے گا کہ وہ پرویز الہی کی جماعت کے ساتھ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کریں گے پھر جیتنے کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی میں دوسرا بڑا عہدہ یعنی ’سپیکر صوبائی اسمبلی‘ بھی سونپیں گے ۔ ناصرف یہ بلکہ یہ بھی ہوا کہ عمران نے پرویز الہی کی جماعت کو پنجاب اور مرکز میں ’حصہ بقدر جثہ‘ سے بھی بڑھ کر وزارتوں سے بھی نوازا۔

اسی طرح یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر چوہدری برادران اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہ ہوتے تو کبھی بھی عمران خان کے اتحادی نہ بنتے۔ بہرحال اپنی سیاسی مجبوریوں کی خاطر عمران خان چوہدریوں کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہونے والے پہلے سیاستدان نہیں۔ اس سے قبل منجھے ہوئے سیاستدان آصف زرداری نے بھی پرویز الہی کو اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم بنایا تھا اور انکی جماعت کو اہم وزارتوں سے بھی نوازا۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق عبوری وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اور ان کے کزن پرویز الہی کا خاندان کئی عشروں سے پنجاب کی سیاست میں اثر رسوخ کا حامل ہے ۔ نواز شریف کے دونوں ادوار میں چوہدری شجاعت حسین وزارت داخلہ سمیت اہم عہدوں پر رہے، تاہم پرویز الہی کی پنجاب کی وزارت اعلی کی خواہش نواز شریف نے پوری نہ ہونے دی جس کے باعث شریف اور چوہدری خاندان میں سرد جنگ جاری رہی جو بالآخر نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے اختتام کے بعد چوہدریوں کی اپنی مسلم لیگ ق کے قیام پر منتج ہوئی۔

چوہدری برادران کو سب سے زیادہ عروج سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں ملا جب قسمت کی دیوی ان پر اس قدر مہربان ہوئی کہ نیب کی تحقیقات میں جیل جاتے جاتے چوہدری برادران اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔ یہ چوہدری برادران کی خوش قسمتی ہی تو تھی کہ مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز چوہدری برادران کے بھی قریبی دوست تھے اس لیے دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے گئے اور چوہدری برادران 2002 کے انتخابات کے بعد ’کنگ میکر‘ بن کر ابھرے اور بلوچستان سے پارٹی رہنما ظفر اللہ جمالی کو انہوں نے ہی وزیراعظم بنوایا۔

2002 میں ہی چوہدری پرویز الہی بالآخر وزیراعلی پنجاب بنے اور دو ماہ کے لیے تو چوہدری شجاعت بھی وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے۔ پھر مشرف کے وردی اتارنے اور نواز شریف کی 10 سالہ جلاوطنی سے واپسی کے بعد چوہدریوں کی سیاسی طاقت کم ہو گئی مگر وہ غیر متعلق کبھی نہ ہوئے بلکہ 2008 کے انتخابات میں شہباز شریف کے ہاتھوں وزارت اعلی کھو دینے کے صرف چار سال بعد پرویز الٰہی پھر نائب وزیراعظم بن گئے۔ صرف نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں اقتدار کا ہما ان سے ناراض رہا تاہم پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک بار پھر ان کا اثر رسوخ بحال ہو گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گجرات کے چوہدریوں کی سیاست 1999 کے بعد سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی ہے اور اس کا برملا اظہار بھی وہ کرتے رہتے ہیں۔ اور یہی ان کی ایک بڑی طاقت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت جوڑ توڑ میں پہلے ان کی طرف دیکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ق لیگ کے پاس مرکز میں صرف پانچ جبکہ پنجاب میں دس سیٹیں ہیں۔

انہی نشستوں کے بل پر وفاق میں مونس الہی وزیر ہیں تو پنجاب میں پرویز الہی سپیکر اسمبلی ہیں۔ اتنی کم نشستیں ہونے کے باوجود خود کو ملکی سیاست کا محور بنا کر رکھنا گجرات کے چوہدریوں کا ہی کمال ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ صرف دس نشستوں کے ساتھ چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی بن کر ایک اور کمال دکھا پاتے ہیں یا نہیں؟

Will Gujarat’s Chaudhry be able to get Chief Ministership? video

Related Articles

Back to top button