کیا بندوق تان کر عمران خان اپنی حکومت بچا پائیں گے؟

پچھلے ساڑھے تین برس سے عوام پر مہنگائی کے بم گراتے ہوئے انہیں نہ گھبرانے کی تلقین کرنے والے

وزیراعظم عمران خان بالآخر خود گھبرا کر فرسٹریشن کا شکار ہو گئے ہیں

اور اپوزیشن والوں کو بندوق سے نشانہ بنانے کی دھمکیاں دینے پر اتر آئے ہیں۔

اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنے جلسوں میں جس طرح کی بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہو چکا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیا بندوقیں تان کر کبھی کوئی حکومت بچائی جا سکتی؟ اپنے ایک حالیہ جلسے میں فرسٹریشن کے مارے وزیر اعظم نے نہایت بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے آصف علی زرداری کو بیماری قرار دے کر بندوق کے نشانے پر لینے کا اعلان کیا، مولانا فضل الرحمن کو فضلو ڈیزل کے نام سے پکارا اور شہباز شریف کو جوتے پالش کرنے والا قرار دے دیا۔

لوگوں کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کی گھبراہٹ کا واضح اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن قیادت کو دھمکی کہ جب تم لوگوں کی تحریک ناکام ہوگی تو دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ موصوف نے مزید کہا کہ پہلے میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے لیکن اب میں تمہارا پیچھا کروں گا اور کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔

یاد رہے کہ اس سے کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کھلی دھمکی دیتے ہوئے اسے خطرناک ہو جانے کی وارننگ دی تھی جس کے بعد میڈیا میں یہ افواہیں چلنا شروع ہوگئی تھیں کہ شاید انہوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری بارے کوئی نوٹیفکیشن صدر عارف علوی سے سائن کروالیا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن قیادت نے وزیر اعظم کی دھمکیوں کے جواب میں انہیں دعوت دی ہے کہ وہ اس کا جو بگاڑنا چاہتے ہیں بگاڑ لیں کیونکہ اب ان کی وزارت عظمی چند دنوں کی مہمان ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اپنی چھٹی ہوتی یقینی نظر آتی ہے لہذا اب وہ گالی گلوچ پر اتر آئے ہیں اور اپنا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار بھی کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عمران خان جس طرح کی زبان استعمال کررہے ہیں اس سے انکی کمزوری عیاں ہوتی یے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد داخل ہو جانے کے بعد اب عمران خان کوئی خطرناک حرکت کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے کیونکہ اب نہ تو وہ آئینی طور پر قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں اور نہ ہی اخلاقی طور پر آرمی چیف کی تبدیلی بارے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران خان نے گھبراہٹ میں ہودہ زبان استعمال کرکے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے ہی اس کی کامیابی کا اعلان کرنا شروع کر دیا ہے۔

کپتان کے مشہور فقرے ’گھبرانا نہیں ہے‘ سے کون واقف نہیں، اسی طرح نواز شریف کا سوال ’مجھے کیوں نکالا؟‘ بھی سب کو یاد ہے۔ لیکن اب یوں لگتا ہے جیسے عمران خان اپنی تقریروں میں یہ پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکال رہے ہو؟

بحیثیت اپوزیشن لیڈرعمران خان کے مشہور بیانات تو عموماً اپنے سیاسی مخالفین کا نشانے پر لینے کے لیے ہوتے تھے لیکن وزیراعظم بننے کے بعد بھی انہوں نے کئی مواقع پر دلچسپ جملے بولے۔ ’سب سے پہلے تو آپ نے گبھرانا نہیں ہے۔‘ ان کا یہ جملہ اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ اس کے تو باضابطہ فالو اپ آتے رہتے ہیں اور جب کبھی بھی وزیر اعظم عوام سے مخاطب ہوتے ہیں تو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام وزیر اعظم سے پوچھ ہی لیتے ہیں  کہ ’کیا اب تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت ہے؟‘ جس پر وزیر اعظم خود بھی مسکرائے بنا رہ نہیں سکتے۔

اسی طرح وزیر اعظم جب بھی تقریر کرتے ہیں تو عموماً مغرب کی مثال دیتے ہیں اور ان کا یہ مشہور و معروف جملہ کہ ’مغرب کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘، بھی ہمہ وقت زیر بحث رہتا ہے۔ تاہم اب مغرب کو سب سے زیادہ سمجھنے کا دعوی کرنے والے عمران خان یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے مغرب کا ہاتھ ہے۔

ان کے ایک اور جملے ’مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یوٹرن لینا عظیم لیڈرشپ کی نشانی ہوتی ہے‘، نے بھی کافی عرصہ تک سوشل میڈیا پر لوگوں کو سرگرمِ مباحثہ رکھا۔

ن لیگ کے پی ٹی آئی اورعمران خان پرمنی لانڈرنگ کے الزامات

اس کے علاوہ عمران خان اپنی تقاریر میں جو فقرے مسلسل دہراتے ہیں ان میں میرے پاکستانیوں۔۔۔۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔۔۔ ریاست مدینہ۔۔۔۔ جب میں کرکٹ سے سیاست میں آیا۔۔۔ نواز شریف، شہباز شریف کی کرپشن۔۔۔ این آر او نہیں ملے گا۔۔۔ سب کو اندر کر دوں گا۔۔۔ دوں گا۔۔۔ خودکشی کر لوں گا۔۔۔ جھکوں گا نہیں۔۔۔ وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے پہلے الیکشن 2018 کے دوران عمران خان نے جو نعرے لگائے ان میں انکا مقبول ترین نعرہ ’آؤ مل کر بنائیں ایک نیا پاکستان!‘ رہا۔

اس کے علاوہ ’صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف چلی‘، ’دو نہیں ایک پاکستان‘ اور ’روک سکو تو روک لو۔۔۔ تبدیلی آئی رے‘ وغیرہ نمایاں تھے۔ تاہم افسوس کہ جب عمران خان برسر اقتدار آئے تو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ آنے والی تبدیلی عوام کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ ان کی بربادی کا پیش خیمہ تھی۔

Will Imran able to save his government by pulling out a gun?

Related Articles

Back to top button