کیا امریکہ دشمنی میں روس سے محبت فائدہ مند ہو گی؟

 

ایک ایسے وقت میں جب یوکرین پر روسی جارحیت کی پوری دنیا مذمت کر رہی ہے

، پاکستان نے اس معاملے میں نیوٹرل رہنے کا اعلان کیا ہے جس کا یہ مطلب لیا جا رہا ہے کہ پاکستان روسی جارحیت کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی تصور نہیں کرتا۔ عالمی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکہ اب بھی دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے جو مشرقی یورپ میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ مل کر طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہے اس لئے حالیہ روس یوکرین تنازع کے بعد امریکہ کے مقابلے میں روس کے ساتھ کھڑے ہونا پاکستان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا۔

ماضی کے برعکس عمران خان کی زیر قیادت پاکستان کی سفارتی سوچ میں اب خاصی تبدیلی آئی ہے، یہ اور بات کے فوجی قیادت سے متفق نہیں ہے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق پاکستان کسی دھڑے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اسی سلسلے میں وزیرِ اعظم عمران خان نے 28 فروری کو قوم سے خطاب کے دوران 24 فروری کو اپنے روس کے دورے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں وہاں دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کی غرض سے گیا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے روسی جارحیت کی مذمت سے انکار کیا ہے حالانکہ یوکرین کی جانب سے بھی پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ روسی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے یوکرین کی خودمختاری اور سالمیت کے حق میں آواز بلند کرے۔

دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم تمام بڑی طاقتوں کو ساتھ لے کر کبھی نہیں چل سکے۔ کبھی ہم سوویت یونین کو توڑنے میں امریکہ کا ساتھ دے کر روس کی مخالفت کرتے ہیں اور کبھی اس وقت دورہ روس کر رہے ہوتے ہیں جب تمام عالمی طاقتیں روس کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا حالیہ دورہ روس دورہ تاریخی ہے لیکن اس کی ٹائمنگ انتہائی غلط تھی جس کی کئی وجوہات ہیں۔

سب سے پہلی وجہ تو روس اور یوکرائن کے کشیدہ تعلقات ہیں جو کہ وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں کشیدگی سے بڑھ کر روس کے یوکرائن پر حملے میں تبدیل ہو گئے۔ اب یہ جنگ صرف روس اور یوکرائن تک محدود نظر نہیں آ رہی بلکہ روس کے مقابل پورا مغرب اس جنگ میں اترتا نظر آ رہا ہے۔ جس میں نیٹو سے لے کر یورپی یونین تک تمام ممالک شامل ہیں۔ یعنی روس کے مدمقابل یا مخالفین میں صرف امریکہ ہی شامل نہیں بلکہ تمام یورپ اور جی 7 ممالک شامل ہیں لہٰذا اس موقع پر پاکستان کی جانب سے روس کے ساتھ کھڑے ہونے سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان امریکہ اور دیگر طاقتور مغربی ممالک کی مخالف صف میں کھڑا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس اور یوکرین کے تنازعے پر بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا تاہم پاکستان نے یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔ اسکا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔

حکومتی حلقے اس فیصلے کو خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی ‘سیاسی دھڑے’ کا حصہ نہیں بن رہا۔ لیکن پاکستان کا ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے اس نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر نیوٹرل کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔

اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں اور تیسرا یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکہ کی حمایت اور ان کا ساتھ دینے میں پاکستان خاص طور پر پیش پیش رہا۔ اس کے نتیجے پاکستان کو نقصان ہی ہوا کیونکہ امریکہ نے ضرورت پڑنے پر ہمارا ساتھ نہیں دیا۔
اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ ہے جس کے نتیجے میں ماہرین اور دیگر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی حمایت میں ’اتنا آگے نکل گیا‘ کہ اسے نقصان اٹھانا پڑا۔

ان تلخ تجربات کی بنیاد پر پاکستان نے اب سبق سیکھ لیا ہے کہ نہ تو فضول جھگڑوں میں پڑا جائے اور نہ ایسی دشمنیاں لیں جن کا ہمارے مفادات سے تعلق نہیں ہے۔

Will love for Russia benefit US enmity? vdeoi

Related Articles

Back to top button