کیا کپتان چین سے تین ارب ڈالرز کا قرض لے پائیں گے؟

وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین پر بیجنگ پہنچنے کے بعد پہلی خبر یہ آئی ہے کہ ماضی کے برعکس ائیر پورٹ پر ان کا استقبال چینی صدر کی بجائے نائب وزیر خارجہ نے کیا۔ سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں جب سابق وزیر اعظم نواز شریف چین کے دورے پر جاتے تھے تو چینی صدر ان کا استقبال کرتے تھے لیکن عمران خان کی مرتبہ یہ روایت توڑ دی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ پاک چین سی پیک پروجیکٹ کے ساتھ حکومت پاکستان کا برا سلوک ہے۔

خیال رہے کہ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے یہ تاثر عام ہے کہ پاک چین سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار سست ترین ہو چکی ہیں جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی ان منصوبوں میں عدم دلچسپی ہے۔ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شاید عمران حکومت نے امریکہ کی خوشنودی کی خاطر دباؤ لیتے ہوئے پاک جین سی پیک منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ تاہم اب جبکہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن وزیراعظم عمران خان کو فون کرنے کی بھی روادار نہیں، تو انکی چین سے محبت دوبارہ جاگ اٹھی ہے اور وہ بیجنگ پہنچ چکے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان چار روزہ دورے پر چین پہنچے جہاں وہ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے علاوہ چینی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ البتہ سفارتی حلقوں کی رائے میں دورے کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں اور عمران خان چین سے تین ارب ڈالرز کا قرض حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ عمران خان کا دورہ دونوں ممالک کے مابین اسٹریٹیجک تعاون کو مزید تقویت بخشے گا۔ اس کے علاوہ مستقبل میں چین اور پاکستان کے رشتے کو مزید مستحکم بنانے کے ہدف تک پہنچنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم کا یہ قریب دو سالوں میں چین کا پہلا دورہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول دورے کا ایک مقصد اپنے قریبی اتحادی ملک کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی ہے کیونکہ چند ملکوں نے سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق کپتان حکومت چین سے تین بلین ڈالر قرض اور چھ شعبوں میں چینی سرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔ چین، امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ یہ خبریں بھی عام ہیں کہ چین کی حکومت پاکستان کے لیے مذید تین بلین ڈالرز کا قرضہ منظور کرنے کی درخواست پر غور کر رہی ہے، جسے چین کی اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ اس سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے۔
بتایا گیا ہے کہ کپتان حکومت ٹیکسٹائل، فٹ ویئر، فارماسیوٹیکل، فرنیچر، زراعت، آٹوموبائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں چینی سرمایہ کاری کی بھی خواہاں ہے۔

چیف جسٹس گلزار کو ریٹائرمنٹ کے بعد سکیورٹی کیوں ملی؟

یاد رہے کہ پاکستان اقتصادی امداد اور تعاون کے لیے چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔کمیونسٹ ملک چین اقتصادی راہداری کے منصوباں کے تحت پہلے ہی اربوں ڈالر پاکستان میں لگا چکا ہے۔ ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ پاکستان اب مالی اور اقتصادی امداد کے لیے چین پر 100 فیصد انحصار کر رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے دورے کا مقصد بیجنگ سے قرض حاصل کرنا ہے، جو چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو عام کیا جاتا ہے، تاہم چین قرضوں اور منصوبوں کی شرائط و ضوابط کو خفیہ رکھتا ہے اور اسی سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔

ایسے میں بلوچستان میں بہت سے قوم پرست چینی سرمایہ کاری پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبوں سے ان کے خطے کو فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ بلوچ قوم پرستوں کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے اگر چینی قرضے ادا نہیں کیے تو چین معدنیات سے مالا مال صوبے میں کان کنی کے ٹھیکے انتہائی رعایتی شرح پر حاصل کر لے گا یا ممکنہ طور پر گوادر کی بندرگاہ پر قبضہ کر لے گا۔

قیصر بنگالی نے کہا کہ اس طرح کے شکوک چینی ترقیاتی منصوبوں اور قرضوں کی شرائط کے بارے میں راز داری کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات سن 1990 کی دہائی کے دوران کچھ کشیدہ رہے لیکن 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد یہ ملک دوبارہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کا اتحادی بن گیا۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد جنوبی ایشیائی ملک پاکستان اب اسٹریٹجک اتحاد کے لیے مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔

لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان چین سے پاکستان کے کیے تین ارب ڈالرز کا قرضہ حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب آپ چین سے قرضہ مانگنے جائیں گے تو پھر چینی صدر ایئرپورٹ پر پاکستانی وزیر اعظم کا استقبال کیوں کریں گے؟

Related Articles

Back to top button