اگلا وزیراعظم نواز لیگ سے ہوگا یا پیپلز پارٹی سے؟

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے متحرک ہو جانے کے بعد اب یہ بحث جاری ہے کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لینے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم مسلم لیگ نواز کا ہوگا یا پیپلز پارٹی کا؟

اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کیخلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اگلا وزیراعظم پیپلز پارٹی سے ہوگا۔ تاہم سماء ٹی وی سے وابستہ سینئر اینکر پرسن ندیم ملک کی رائے مختلف ہے اور ان کے خیال میں یہ عہدہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو دیا جائے گا جو کہ تحریک انصاف کے بعد قومی اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت نواز لیگ کے سربراہ بھی ہیں۔چینل 24 پر نسیم زہرہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد۔میر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن آصف زرداری کیساتھ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کر چکی ہے کہ اگلا وزیراعظم پیپلز پارٹی سے لایا جائے گا۔

ان کے مطابق نواز لیگ ملک کو درپیش سنگین معاشی صورتحال میں وزارت عظمی سنبھال کر ناکامی سے دوچار نہیں ہونا چایے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کئی اہم چیزیں طے ہو چکی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کی نمبر گیم اس وقت پوری ہو چکی ہے مگر مسئلہ یہ در پیش ہے کہ تحریک انصاف اور اسکی اتحادی جماعتوں کے اراکین عمران خان کے خلاف اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کی صورت میں اگلے عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا اس معاملے پر یہ موقف ہے کہ اگر ہم نے ان اراکین اسمبلی کو ٹکٹس دے دیئے تو ہمارے لوگ کہاں جائیں گے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) سائوتھ پنجاب کے بعض حصوں میں سمجھوتہ کر کے ٹکٹ دینے کیلئے تیار ہو چکی ہے مگر سینٹرل پنجاب میں ابھی اسے مشکل صورتحال نظر آ رہی ہے۔

امریکی قونصلیٹ نے فیصل واوڈا کی نااہلی میں کیسے حصہ ڈالا؟

پچھلے آٹھ ماہ سے جیو ٹی وی پر پابندی کا شکار سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ عمران کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں وزیر اعظم پیپلز پارٹی سے لیا جائے گا اور نواز لیگ اس کی حمایت کرے گی، مگر اس معاملے پر آصف زرداری نے اپنی جماعت سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کرنے کا کہا ہے، انکا کہنا یے کہ وہ اکیلے اتنا اہم فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے نتائج بھی آئیں گے۔

لیکن حامد میر نے کہا کہ اس نکتے پر دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق ہے کہ عمران خان کو جلد از جلد گھر بلوایا جائے لہذا آپ دیکھیں گے کہ 23 مارچ سے پہلے بہت کچھ بدل جائے گا اور سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔

دوسری جانب سینئر صحافی اور اینکرپرسن ندیم ملک نے سما ٹی وی پر اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ کے اگلے اجلاس میں بطور وزیراعظم میاں شہباز شریف کے نام کی منظوری لیے جانے کی خبریں ہیں جسکے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی جسکے کامیاب ہونے کی صورت میں شہباز شریف وزیراعظم بننے کے بعد تین مہینوں میں حکومت توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کر دیں گے۔

تاہم انکا کہنا تھا کہ مستقبل کا یہ سیاسی منظر نامہ زبانی تو بڑا آسان ہے لیکن اسے عملی طور پر کر کے دکھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ندیم ملک کا کہنا تھا کہ حکومت نے بھی اپنے پتے سنبھالیں ہونگے جنھیں وہ ضرور کھیلے گی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حزب اختلاف عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائے اور حکومت پلیٹ میں رکھ کر انھیں اقتدار پیش کر دے۔

انکا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے مابین بہت سارے اہم ایشوز پر اختلاف ہے، ویسے بھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اگلے الیکشن میں ایکدوسرے کے خلاف جانا ہے لہذا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں عمران خان کو نکالے جانے پر اتفاق ہے اور ان کا اقتدار چند ہفتوں میں ختم ہونے والا ہے۔

Related Articles

Back to top button