ضمیر مطمئن ہو تو ریٹائرمنٹ پر سکیورٹی نہیں مانگنا پڑتی

سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر کام کرنے والوں کا ضمیر مطمئن ہو تو انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی حفاظت کے لیے ریاست سے سکیورٹی نہیں مانگنا پڑتی۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ جسٹس گلزار احمد دو سال ایک ماہ تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ کر یکم فروری 2022 کو ریٹائر ہو گئے۔

جسٹس گلزار کی ریٹائرمنٹ سے چار دن قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے وزارت داخلہ کو خط لکھ کر درخواست کی جسٹس گلزار کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چیف جسٹس کی سیکیورٹی دی جائے۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے سفر کے دوران رینجرز اور پولیس کے حفاظتی اسکواڈ کی درخواست بھی کی اور حکومت نے یہ درخواست منظور بھی کر لی۔ یوں اب جسٹس گلزار کو چیف جسٹس کے برابر سیکیورٹی اور پروٹوکول دیا جائے گا۔

ان سے قبل یہ سہولت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی لے رہے ہیں۔ یوں حکومت ملک کے اکثر ریٹائرڈ ججز کی حفاظت کر رہی ہے۔

جاوید چودھری کہتے ہیں کہ اب سوال یہ ہے پاکستان جسٹس گلزار کا اپنا ملک ہے، لوگ بھی ان کے ہیں اور وہ نیک نیتی سے پوری زندگی مظلوم عوام کو انصاف بھی دیتے رہے ہیں لہٰذا انھیں کس سے اور کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اللہ تعالیٰ کے بعد مظلوموں کی آخری امید ہوتے ہیں۔ وہ قلم کی ایک جنبش سے وزیراعظم اور صدر تک کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں. وزیراعظم عمران خان نے اگست 2019 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی۔

یہ معاملہ الجھ گیا تھا اور بالآخر سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ میں حل ہوا تھا۔ آپ اس سے ہی چیف جسٹس کے اختیارات کا اندازہ کر لیجیے۔ جان دینا اور جان لینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کال کوٹھڑی کے کسی بھی مجرم کو آزاد اور کسی بھی آزاد شخص کو کال کوٹھڑی تک پہنچا سکتا ہے۔

الطاف حسین نے ڈی جی رینجرز کو پکڑنے کا حکم کیوں دیا؟

میاں نواز شریف کو بھی اقامہ پر عدالت ہی نے نااہل قرار دیا تھا اور وہ اس فیصلے کے بعد بھاری مینڈیٹ کے باوجود سڑکوں اور جیلوں میں خوار ہوتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا اور وہ وزیراعظم ہاؤس سے فارغ ہو کر واپس ملتان پہنچ گئے تھے۔

بقول جاوید چودھری، سب سے خوف ناک مثال یہ یے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا بین الاقوامی لیڈر بھی عدالتی حکم سے پھانسی پر لٹک گیا، لہٰذا پھر اتنے وسیع اختیارات اور پوری قوم کو انصاف دینے والے شخص کو اپنے ملک میں اور اپنے لوگوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟میں حیران ہوں جسٹس گلزار کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہی ملک میں سیکیورٹی چاہیے! موصوف سرکاری نوکری کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں.

وہ اب سینہ تان کر مارکیٹوں، پارکس، سڑکوں اور بازاروں میں جائیں، دوستوں سے ملیں، کافی شاپس اور ریستورانوں میں چائے اور کھانے انجوائے کریں اور قطاروں میں کھڑے ہو کر عام آدمی والی آزاد زندگی کا لطف لیں، اگر جسٹس گلزار اپنے ضمیر سے مطمئن ہیں تو لوگ یقینا آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ بھی چومیں گے، جھک کر ان کو سلام بھی کریں گے اور ان کے انصاف پر مبنی سنہرے دور کو سیلوٹ بھی کریں گے۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ جسٹس گلزار ان سلاموں اور سیلوٹس کو انجوائے کیوں نہیں کرنا چاہتے، وہ اب بھی قیدی کی زندگی کیوں گزارنا چاہتے ہیں؟ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی، میں آج تک یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ ملک کا ہر طاقتور شخص ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گھر میں کیوں قید ہو جاتا ہے۔

وہ عوام کو فیس کیوں نہیں کرتا، وہ پبلک میں کیوں دکھائی نہیں دیتا اور جب بھی باہر نکلتا ہے تو اسے سیکیورٹی کی کیوں ضرورت پڑتی ہے۔ سوال یہ بھی یے کہ ہر طاقتور شخص ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے ہی ملک میں خود کو غیر محفوظ کیوں محسوس کرتا ہے؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں انکی زندگی میں کرسی کے سوا کچھ نہ ہو اور انھوں نے کرسی پر بیٹھ کر بھی لوگوں کو تکلیف اور اذیت کے سوا کچھ نہ دیا ہو؟ فیصلہ آپ خود کر لیجیے۔

Related Articles

Back to top button