زمان پارک میں موجود ڈنڈا بردار شدت پسند اصل میں کون ہیں؟

زمان پارک میں عدالتی حکم پر عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلئےزمان پارک آنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر تربیت یافتہ جتھوں کے حملوں نے سیکیورٹی اداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیکیورٹی ادارے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف عمل ہیں کہ لاہور شہر میں زمان پارک جیسے پر امن علاقے میں پولیس اہلکاروں پر غلیلوں، پٹرول بموں، ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کرنے والے لوگ دراصل کون تھے؟ اور ان کو عمران خان کی رہائش گاہ تک کس نے پہنچایا اور لاہور میں ان کی سہولتکاری میں کون کون شامل ہے؟زمان پارک میں موجود شدت پسندوں بارے وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے انکشاف کیا ہے کہ صوفی محمد کے دست راست سمیت مختلف دہشت گرد زمان پارک میں موجود ہیں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی زمان پارک موجود ہیں جبکہ ان میں صوفی محمد کا ایک رشتہ دار بھی شامل ہے۔انھوں نے کہا کہ مذکورہ دہشت گرد کا تعلق تحریک نفاذ شر یعت محمدی سے ہے اور یہ اپنی کارستانیوں پر آٹھ سال جیل بھی کاٹ چکا ہے۔وہ عسکریت پسند اب خیبر پختونخواہ کی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے اور سابق وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔
دوسری طرف انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کو روکنے میں شریک بیشتر کارکنان کا تعلق لاہور سے نہیں تھا بلکہ وہ خیبرپختونخواہ سمیت دیگر شہروں سے وہاں آئے تھے یا پھر لائے گئے تھے۔عمران خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن دو دن تک جاری رہا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نرم مزاج نوجوانوں پر مشتمل تنظیم اتنی سخت گیر کیسے ہو گئی کہ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو چیلنج کر دیا؟اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی پی ٹی آئی کارکنان کو کیسے منظم کیا جا رہا ہے۔
مختلف کارکنان کے انٹرویوز کے بعد یہ معلوم ہوا کہ بیشتر ڈنڈا بردار نوجوان خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ زمان پارک لاہور اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی موجود رہے مگر زیادہ تعداد دوسرے علاقوں سے یہاں لائے گئے کارکنوں کی ہے۔باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تاج محمد نے بتایا کہ ایم این اے گل ظفر کی قیادت میں وہاں سے لاہور آئے ہیں۔’تقریباً چار پانچ سو آدمی ہیں اور ادھر ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ زمان پارک کے ارد گرد موجود خیبرپختونخواہ سے آئے ہوئے غلیلں اور ڈنڈے پکڑے نوجوان عمران خان کا تحفظ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہنے کا دعوی کرتے نظر آئے۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے صدام عباس شاہ نے بھی ڈنڈا تھاما ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے زمان پارک کے باہر ’ڈیوٹی‘ کر رہے ہیں، انہیں لاہور میں دو ہفتے ہو گئے ہیں۔’لکی مروت سے دو تین ہزار مخلوق یہاں قافلے کی صورت میں آئی ہوئی ہے۔ ہمارے سینے بھی حاضر ہیں اور ہم بھی، یہ ہم سے عمران خان نہیں لے سکیں گے، ہمیں مار دیں پھر خان کو لے جائیں لیکن زندہ ہوتے ہوئے کوئی خان کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔‘ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں بڑی تعداد میں زمان پارک لایا گیا ہے جہاں وہ ڈنڈوں کے ساتھ موجود ہیں اور ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ زمان پارک میں کشیدگی کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں یاسمین راشد اور اعجاز شاہ کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آئی تھی۔مبینہ آڈیو میں یاسمین راشد نے اعجاز شاہ سے کہا کہ خان صاحب نے اس وقت کہا ہے کہ سارے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فون کرو۔اس پر اعجاز شاہ نے جواب دیا کہ ہم کر رہے ہیں، پھر یاسمین راشد نے عمران خان کی ہدایات سابق وزیر کو دیتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ بندے لےکرپہنچیں۔یاسمین راشد کے مطابق عمران خان کہہ رہے ہیں ان کوکہو فوری پہنچیں جو نہیں پہنچے گا اسے میں ٹکٹ نہیں دوں گا، خان صاحب نے یہ بات ڈائریکلی کہی ہے۔بعد ازاں یاسمین راشد نے اعجاز شاہ کے ساتھ آڈیو لیک کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں پارٹی کی صدرہوں کیا اپنے لوگوں کونہیں بلاوں گی، 23 گھنٹے ہوگئے ہیں ہمارے لوگ سڑکوں پرہیں ان پرشیلنگ اورتشدد کیا جارہا ہے۔بعد ازاں تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کی بھی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں ریلی کے لیے بندے نہ لانے پر اپنے ساتھی پر غصہ کررہے تھے۔