مریم نواز کے ہاتھ ملانے پر سوشل میڈیا کیمپین: گندی ذہنیت کا اظہار

عمران خان کے یوتھیا بریگیڈ کی جانب سے وزیراعلیٰ مریم نواز کے خلاف متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید بن النہیان سے مصافحہ کرنے پر شروع کی جانے والی گھٹیا سوشل میڈیا مہم سخت تنقید کی زد میں آ گئی ہے۔ ویسے تو گاہے بگاہے مریم نواز کو ان کے یوتھیے مخالفین تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، لیکن اس بار پاکستان کے دورے پر آئے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان کے ساتھ ان کے سفارتی مصافحے نے سوشل میڈیا پر آگ لگا دی ہے۔

پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں نے مریم نواز اور امارات کے صدر کے مصافحے کی تصویر سامنے آنے پر طوفان برپا کر دیا ہے اور اس کو وائرل کر کے گھٹیا قسم کے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ طارق متین نامی ایک یوتھیے صحافی نے لکھا کہ ’جب آپ اہم عہدے پر ہوں تو مرد و خواتین دنیا بھر میں مصافحہ کرتے ہیں اور میں اسے دنیاوی اعتبار سے قابل قبول بھی مانتا ہوں، مگر مریم نواز وہ ہیں جن کو نیب افسران کے سامنے تفتیش کے لیے پیشی پر محرم نا محرم کے مسائل یاد آتے تھے‘۔

عمران خان کی ایک اور حامی فاطمہ نے مریم نواز کی ایک ویڈیو شئیر کی جس میں مریم نواز کہتی نظر آئیں کہ ’میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، یہ چیز میرے خون میں شامل ہے، دین سے محبت اسلام سے محبت میرے خون میں شامل ہے، دین کے جو احکامات ہیں ان کی پابندی کرنا میرے خون میں شامل ہے میری تربیت میں شامل ہے‘۔ انہوں نے مریم کو مخاطب کر کے لکھا کہ یہ ہے آپ کی تربیت جو آپ کے خون میں شامل ہے۔ اچھا ہوا اپ نے اپنا اصل چہرہ خود ہی دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔

تاہم کڑوا سچ تو یہ ہے کہ برصغیر کی سیاست میں خواتین کو کمتر سمجھنے اور ان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے اپنانے کی روایت عام ہے۔ بے نظیر بھٹو سے اندرا گاندھی تک اور مریم نواز سے پریانکا گاندھی تک خواتین سیاست دانوں کو ان کی جنس کی وجہ سے ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ جنسی بنیاد پر خواتین کو جانچنے کی خوفناک ذہنیت کا اظہار ہے۔ لیکن یہ ٹرینڈ صرف سیاست تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر شعبے میں ہے جہاں خواتین اچھا کر رہیں وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ سلسلہ بھی جاری ہے۔

برصغیر کی سیاست میں خواتین کو کمتر قرار دینے اور ان کے خلاف جنسی نوعیت کے بیانات دینے کی گھٹیا روایت کئی دہائیوں سے عام ہے۔ بھارت اور پاکستان کی سیاست میں بھی اپنی سیاسی حریف کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے اکثر اس کے جنس، مذہب یا خاندانی پس منظر کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دونوں ممالک میں اکثر خواتین سیاستدانوں کو اپنی جنس کی بنیاد پر بلاجواز تنقید اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اس کے میک اپ اور کپڑوں کو ایشو بنا لیا جاتا ہے تو کبھی کسی مرد سے ہاتھ ملانے کو سکینڈلائز کر دیا جاتا ہے۔

اس کی ایک حالیہ مثال انڈیا میں بی جے پی رہنما اور سابق رکن پارلیمان رمیش بیدھوری کی ہے جنھوں نے کانگریس سے تعلق رکھنے والی اپنی سیاسی مخالف پرینکا گاندھی کے چہرے کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اسی طرح تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو اس لیے گھٹیا تنقید کا نشانہ بنا رہا یے کہ انھوں نے ایک سرکاری دورے میں متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید سے ہاتھ ملایا۔

اس قسم کے بیانات اور تبصروں کو دونوں ہی ملکوں میں بعض حلقوں نے جنسی طور پر متعاصبانہ قرار دیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ رمیش بیدھوری اس طرح کے متنازع بیان کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس سے قبل پارلیمان کے اندر ایک مسلم رکن پارلیمان کے لیے انھوں نے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا جس کے بعد انھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ پارٹی نے انھیں ان کی سیٹ سے دوبارہ ٹکٹ نہیں دیا۔ لیکن بیدھوری کو بے جے پی نے آنے والے دنوں میں دہلی اسمبلی الیکشن میں اپنا امیدوار بنایا ہے۔ سوشل میڈیا پر کانگریس رہنما پرینکا گاندھی کے متعلق رمیش بیدھوری کا بیان گردش کر رہا ہے جس میں وہ اپنے اسمبلی حلقے میں ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سڑکوں کو ان کے ’گال کی طرح‘ بنا دیں گے۔

بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد کو بھی اس سلسلے میں یاد کیا جا رہا ہے جنھوں نے یہی بات ہیما مالنی کے متعلق کہی تھی۔ انڈین خبر رساں ادارے کے مطابق 2007 لالو پرساد نے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ‘یہ بات سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہی تھی، جسے میرے سر منڈھ دیا گیا۔’ بہر حال اس بابت ہیما مالنی کا بیان بھی گردش کر رہا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ ‘لالو پرساد کے بیان سے یہ ٹرینڈ شروع ہوا اور اب بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’ہم عام آدمی کی بات نہیں کر رہے ہیں لیکن پارلیمان میں پہنچنے والوں سے اس قسم کا بیان آتا ہے تو یہ بے مزہ ہے۔ کسی بھی خاتون کے بارے میں ایسی باتیں ناگوار ہیں۔’

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے نہ صرف کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے حامیان چراغ پا ہیں بلکہ عوام بھی اس طرح کی زبان اور بیان سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ کانگریس کی ترجمان سوپریا شرینیت نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا: ‘بی جے پی خواتین مخالف ہے۔ پرینکا گاندھی کے بارے میں رمیش بیدھوری کا بیان نہ صرف شرمناک ہے بلکہ ان کی حقیقی بیمار خواتین مخالف ذہنیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’نہ صرف رمیش بیدھوری بلکہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو اس پر معافی مانگنی چاہیے۔‘

یاد ریے کہ اسی حوالے سے نومبر 1997 میں کیمبرج یونیورسٹی کے کینیڈی سکول آف گورمنٹ میں ‘کونسل آف ویمن ورلڈ لیڈرز لیکچرز’ کے ایک سلسلے کے دوران بے نظیر بھٹو نے سیاسی ماحول پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ شخصیت اور امیج پر غیر ضروری زور دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا: ’میں قائدین پر تنقید کرنے کے عوام کے حق کا آخری سانس تک دفاع کروں گی، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہم کہاں لکیر کھینچیں، پالیسی پر توجہ دیں نہ کہ شخصیت پر۔‘ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ‘میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں کہ میرا وزن بڑھ گیا ہے یا میں نے سلوٹوں والے کپڑے پہن رکھے ہیں۔’

پنجاب پولیس کا یوتھیوں کو قابو کرنے کیلئے کتے استعمال کرنے کا فیصلہ

افسوس کی بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تھیں لیکن عوام کی تنگ نظری ہر مبنی سوچ آج دن تک نہیں بدل پائی۔

Back to top button